اپنے تعارف سے فارغ ہو کر رایل نے اپنے بیگ میں موجودہ چیزوں کو نکال نکال کر اسے دکھانا شروع کیا۔وہ ساتھ ساتھ بریفنگ بھی دے رہا تھا کہ کونسی چیز کیسے وجود میں آئی اور اسے عجیب وغریب نمونہ بنانے کے لیے اسے کتنی محنت کرنا پڑی،کیسے کیسے تجربات سے گزرنا پڑا، اور یہ کہ ان اشیاء کے فوائد وہ اپنی انگلیوں پر گن کر بتا سکتا ہے، اور یہ بھی کہ اس کی طرف سے فراہم کی گئی معلومات رینا کا مستقبل سنوار سکتی ہیں، اس کے تعلیمی کیرئیر کو بلندیوں پر پہنچا سکتی ہیں وغیرہ وغیرہ۔
رینا کے نزدیک وہ غیر ضروری اشیاء تھیں جن سے اس نے اپنا بیگ بھر رکھا تھا مگر رایل کے لیے وہ اس کا قیمتی سرمایہ تھا جسے وہ ہر جگہ اپنے ساتھ لیے پھرتا تھا۔
جب بیگ میں موجودہ ہر چیز کا تعارف ختم ہو چکا تو اس نے ڈوسان کا ذکر چھیڑتے ہوئے اس کی جغرافیائی تاریخ کے ساتھ ساتھ اپنے دادا پردادا کے دور کے قصے اس دھڑلے سے سنائے جیسے وہ ان کے دور میں سب اپنی آنکھوں سے دیکھ آیا ہو۔ یا جیسے آباء واجداد کی ارواح نے باقاعدہ اس کے ساتھ میٹنگ کر کے، من و عن تمام واقعات سنا ڈالے ہوں۔
رینا ضبط کی حدوں پر قدم جمائے لال بھبھوکا چہرے کے ساتھ بیٹھی تھی۔ اس کا بس نہیں چل رہا تھا وہ اس باتونی لڑکے کو اٹھا کر باہر پھینک دے۔کوئی اور جگہ خالی نہ تھی، اور رایل ڈھیٹ تھا ، اس کے بار بار ٹوکنے پر بھی چپ نہیں ہو رہا تھا۔
اب اگر اس کے دادا پردادا کی کسی نے ٹانگ توڑی تھی،یا گاڑی چرائی تھی ،یا وہ کسی چھت سے پھسل کر گرے تھے تو اس میں رینا کا کیا دخل؟؟اسے کیوں سزا مل رہی تھی۔ (رایل کی صورت)وہ اسے کیوں سنا رہا تھا؟؟
" میں نے تو شین سے کہا،آو مزے کریں گے ، مگر اسے کتابوں سے فرصت ملے تب نا۔۔۔ذرا دیر کے لیے اپنی کسی کتاب سے سر اٹھا لے تو اسے لگتا ہے زندگی بس یہیں ختم۔"
....
رینا کو یکایک رایل کی فیملی کا خیال آ گیا۔ اس کے گھر والے کتنے خوش ہوں گے ؟ کتنے مطمئن اور پرسکون ؟ نہ کانوں میں درد پڑتا ہو گا؟ نہ سر میں درد اٹھتا ہو گا؟!
’’میرا تعارف ہو چکا۔ میں نے صاف گوئی سے سب بتا دیا ہے، اب تمہاری باری ہے۔تم مجھے اپنے بارے میں بتاو۔سڑیل بھی تم ہو ، ڈرپوک بھی ہو ،چڑیل بھی ہو ، یہ میں جان گیا ہوں، اس کے علاؤہ اور کیا کیا ہو، یہ بتا دو؟‘‘
"میں جو جو بھی ہوں، تمہیں اس سے کیا مطلب ہے؟ "
"مطلب مجھے اس سے کوئی نہیں ، بس باتوں سے سفر اچھا کٹتا ہے!"
"تمہارا سفر اچھا کٹ رہا ہو گا۔میرا برباد ہو رہا ہے!"
وہ سر پیچھے کیے ہنس دیا۔ماروی گردن موڑے اسے دیکھ رہی تھی۔ اس کی دھڑکنیں ایک دم سے تھم گئیں۔ کیا وہ اتنا خوبصورت تھا؟ یا اس پل اسے لگ رہا تھا؟
’’کیا تمہیں کبھی کسی نے بتایا کہ تم کتنا فضول بولتے ہو؟‘‘وہ جو اپنی دھن میں مزید بولنے لگا تھا‘ لب بھینچ کر رینا کو گھورنے لگا۔
’’فضول لوگوں کے علاوہ کبھی کسی نے یہ بات نہیں کہی۔انفیکٹ لوگ میرے ساتھ بہت انجوائے کرتے ہیں۔‘‘
’’ہا!لوگ انجوائے کرتے ہیں!‘‘ رینا نے تمسخر اڑایا۔ ’’تم ایسا کرو یہ فالتو انرجی بولنے کے علاوہ کسی مفید کام پر استعمال کرو، بہت فائدہ ہو گا تمہیں!‘‘
’’ مجھے اپنی انرجی کہاں استعمال کرنی ہے،کہاں نہیں۔ اسکا فیصلہ بھی مجھے ہی کرنا ہے۔رائٹ؟؟"
رینا گھور کر رہ گئی۔
" میں نے سوچا تمھارا اچھا وقت گزر جائے گا مگر تم ہو کہ….‘‘اس نے تأسف سے سر ہلایا۔’’بس کچھ لوگ اس قابل ہی نہیں ہوتے کہ ان کے ساتھ بھلائی کی جائے! ‘‘
’’نیکسٹ ٹائم جب بھلائی کا ارادہ کرو تو مجھ سے بات مت کرنا، یہ تمہارے لیے بھی بہتر ہو گا اور میرے لیے بھی،‘‘
’’خدا نہ کرے کبھی ((نیکسٹ ٹائم)) بھی آئے!‘‘رایل کو بھی برا لگ گیا۔ ’’ تمہیں کیا لگتا ہے یہاں میں اپنی خوشی سے بیٹھا ہوں؟؟ مجبورا بیٹھا ہوں!! مجبوراً!اور مجھے تو لگتا ہے تم انسان
...
ہی نہیں ہو…چڑیل ہو۔۔۔ ایلیَِن ہو!!‘‘
’’واٹ!!‘‘رینا جھٹکے سے اس کی طرف مڑی ، ’’زبان سنبھال کر بات کرو تم! اتنی دیر سے تمہیں برداشت کر رہی ہوں تو اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ جو منہ میں آئے بولتے جاؤ!‘‘رینا کی آواز خاصی بلند ہو گئی تھی۔ آس پاس بیٹھے لوگ مڑ کر اسے دیکھنے لگے۔
رایل اپنے موبائل اسکرین پر مصروفیت بھرے انداز میں دیکھنے لگا ،رینا تو جیسے بھوتوں سے لڑ رہی تھی….ہونہہ!
دل ہی دل میں رایل کو کوستے ہوئے اس نے اپنا رخ دوسری جانب موڑ لیا۔
’’ویسے ایک بات بتاؤں تمہیں؟‘‘
چپ رہنا تو جیسے اس کے بس کی بات تھی ہی نہیں۔ ٹھیک تین منٹ اور 15 سیکنڈ کے بعد وہ اپنے موبائل پر گیم کھیلتے ہوئے گویا ہوا۔
رینا نے غصے پر قابو پانے کے لیے نہ صرف آنکھیں بند کر لیں بلکے دانت پر دانت جماتے ہوئے مٹھیاں بھی بھینچ لیں۔یہ لڑکا آج مرے گا۔یقینا مرے گا۔
" یہ جو جھیل آسیل ہے ، سنا ہے پہلے بہت خوبصورت ہوا کرتی تھی۔ " اس عرصے میں اب تک رایل نے جتنی باتیں کی تھیں ان میں صرف ایک یہی کام کی تھی۔رینا نے چونک کر اس کی جانب دیکھا۔وہ جیسے تیر کے ٹھیک نشانے لگنے پر مسکرا اٹھا۔رینا بے دلی سے رخ پھیر گی۔
"اب انسانوں پر تو بڑھاپا طاری ہوتے دیکھا ہے میں نے ۔۔۔پر ایک جھیل پر طاری ہوتےپہلی بار سنا ہے !!!" موبائل سے نظر ہٹا کر اس نے بوگی میں نگاہ دوڑائی۔کھڑکیوں سے باہر جھانکا۔بازو سیدھے کیے۔ پھر اسے رینا کا خیال آیا ۔
’’تم ابھی تک ناراض بیٹھی ہو؟ اب دشمنوں میں اتنی تو کھٹ پٹ ہوتی ہی رہتی ہے…‘‘
رینا کا رخ کھڑکی کی طرف رہا۔ وہ بھنویں سکیڑے خاموش بیٹھی تھی۔
"کہتے ہیں آسیل بیرینڈور کا مرکز تھی۔ the center....اور لوگ دور دور سے اسے دیکھنے آتے تھے۔ ….سن رہی ہو تم!؟‘‘
رینا بھلا کیوں ظاہر ہونے دے کہ وہ بہت توجہ سے سن رہی ہے؟
...
’’نہیں تو نہ سہی!! میں کیوں خواہ مخواہ اپنی انرجی ضائع کروں؟‘‘وہ کندھے اچکا کر خاموش ہو گیا۔
’’صحیح کہہ رہے ہو بیٹے!‘‘رایل کی دائیں طرف سنگل سیٹ پر ایک صاحب براجمان تھے۔
’’یہ جھیل انتہائی خوبصورت تھی۔‘‘ ان کی آنکھیں اندر کو دھنسی ہوئی تھیں ،رنگت سفید تھی، پیشانی پر لکیریں ، چہرے پر جھریاں، سر گنجا تھا، انگلیاں کمزور تھیں ، بدن نحیف تھا۔
وہ شاید کافی دیر سے ان کی باتیں سن رہے تھے۔رینا کو خفت سی ہوئی۔
’’اس جھیل کو کیا ہوا سر ؟‘‘رایل پوری توجہ سے ان کی طرف گھوم گیا۔
"مسٹر کونارڈ!"ذرا سا کھانس کر انہوں نے اپنا تعارف کروایا۔رایل نے بھی جھٹ سے اپنا نام بتایا ۔
’’معلوم نہیں۔یہ ایک معمہ ہے جو آج تک کوئی حل نہیں کر سکا۔ جھیل کا پانی خشک ہو گیا۔درخت مرجھا گئے۔جگہ سیاہ ہو گئی!‘‘
’’لو اتنا آسان معمہ!‘‘رایل نے گویا ناک سے مکھی اڑائی،’’ممکن ہے بیرینڈور میں پانی چور گینگ آباد ہو، جس نے زیر زمین پائپس لگا کر جھیل کا سارا پانی چرا لیا ہو اور سنسنی پھیلانے کے لیے جھیل کے اطراف میں ایک زہریلی دوا چھڑک دی ہو تاکہ درخت مرجھا جائیں،مٹی سیاہ ہو جائے۔کیا خبر انکی خواہش ہو کہ بیرینڈور کے لوگ سالوں تک خوف سے کانپتے رہیں کہ آخر پانی گیا بھی تو گیا کہاں؟‘‘اس کی عجیب وغریب قیاس آرائیوں پر مسٹر کونارڈ کے تو چودہ طبق روشن ہو گئے۔
’’اب غور طلب سوال یہ ہے کہ پانی چرانے سے بھلا انہیں کیا فائدہ ہو سکتا ہے؟‘‘وہ ٹھیوڑی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے چند لمحوں کے لیے خیالات میں غرق ہوا پھر خود ہی باہر آ گیا۔
’’اور ممکن ہے جھیل کا پانی انوکھا اثر رکھتا ہو۔ممکن ہے پانی پینے سے بوڑھے جوان ہو جایا کرتے ہوں؟‘‘
’’تم چپ نہیں رہ سکتے؟‘‘رینا کا ضبط جواب دے گیا۔
’’سر بتائیں کیا میرے اندازے درست ہیں!ْْ؟‘‘رایل اسے نظرانداز کر گیا۔
مسٹر کونارڈ بیچارے گلا کھنکھار کر رہ گئے۔
’’سر آپ مجھے بتائیے جھیل پہلے کیسی ہوا کرتی تھی؟؟‘‘ وہ
...
رایل اور رایل کے’’پانی چور گینگ‘‘کو بھاڑ میں بھیجتے ہوئے انہیں جھیل کے پرسرار معمہ کی طرف واپس لے آئی۔
انہوں نے فضاء میں دیکھا،ایک سانس بھری ،کوئی یاد تازہ ہوئی ، آنکھوں میں چمک اتری۔پھروہ مسکرائے۔
"مجھے وہ آخری منظر بہت اچھے سے یاد ہے ، رات کا وقت تھا۔درخت ہی درخت ۔۔ایسے اونچے گھنے ،پھیلے ہوئے ۔۔۔ "لہجے میں اشتیاق سا لیے وہ رینا کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بتانے لگے۔
"اور وہاں گلاب تھے ، عام گلاب نہیں ،سیاہ گلاب!"
رینا چونک گئی۔
"اور جب اندھیرا ہوتا تھا تو ان سے روشنی نکلتی تھی،اور ذرے بکھرتے تھے۔۔چھوٹے چھوٹے چمکیلے ۔۔جیسے جگنوں اوپر نیچے اڑ رہے ہوں....اور۔۔۔اور ۔۔۔۔" دماغ پر زور دے کر سوچتے ، پھر کچھ سوچ کر مسکراتے انہوں نے گردن پر خارش کی۔ "دربان کہتا تھا یہ پھول جھیل کے محافظ ہیں۔ اور جھیل ۔۔اسکا پانی بہت شفاف تھا، تیرتی ہوئی مچھلیاں اور اندر کا سبزہ دکھائی دیتا تھا۔۔۔اور جانتی ہو سب سے حیران کن بات کیا تھی؟" ان کی آواز سرگوشی میں ،اور لہجہ پراسراریت میں ڈھلا۔
"کیا تھی؟" رینا اور رایل کی آواز ایک ہوئی۔
"جھیل کے اندر گہرائی میں ہیرے و جواہرات نصب تھے ،جن کی چمک سطح پر نظر آتی تھی!"
دونوں متحیر سے انہیں دیکھ کر رہ گئے۔
"ایک عرصے تک بیرینڈور کے لوگ جھیل میں ان پتھروں کی تلاش میں لگے رہے۔جو بھی تیراک جتنی گہرائی میں جاتا ،یہ روشن ہیرے اور پتھر اتنا ہی دور ہوتے چلے جاتے ، کوئی بھی ان جواہرات کی حقیقت نہ جان سکا،اور نہ ہی ان تک کبھی پہنچ سکا۔ میرا دوست کہتا تھا کونارڈ! یہ ہیرے جواہرات نہیں ہیں،تم ان کے پیچھے مت پڑو....اور مجھے لگتا تھا نہیں!! یہ یہاں ہیں ہی اس لیے تاکہ ان تک پہنچا جا سکے۔مگر وہ سفر کبھی ختم نہیں ہوا۔۔۔جھیل کی سطح سے نیچے ان ہیروں تک کا سفر!!!۔۔۔ " وہ ڈرامائی وقفہ لیتے ایک لمحے کو چپ ہوئے ۔"کئی لوگوں نے اس لالچ میں اپنی جانیں گنوا دیں۔بیرینڈور کی انتظامیہ نے پابندی لگا دی۔ پھر یہ خبر پھیلی کہ لوگ لاپتا ہو رہے ہیں!" وہ بس ذرا دیر کو چپ ہوئے اور رایل کا دماغ روشن ہو گیا۔
..
"اب سمجھ آیا۔۔ اس پانی چور گینگ نے جھیل سے سارا پانی نکالا ہی اس لیے ہو گا تاکہ وہ ہیرے و جواہرات تک رسائی حاصل کر سکیں۔‘‘ انتہائی سنجیدگی سے اپنے سنہرے خیالات سے آگاہ کرتے وہ شروع ہو گیا۔ رینا نے بےاختیار اپنی پیشانی کو چھوا۔
"اور یہ سیاہ گلاب ؟ روشن پھول؟؟ہیرے ،جواہرات ؟ وہ بھی جھیل کے اندر ؟؟عقل مانتی ہے یہ؟؟؟ سر آپ بھی کیا خیالی باتیں لے کر بیٹھ گئے ہیں!!" وہ ہنسا۔
’’یہ خیالی باتیں نہیں ہیں۔‘‘وہ سنجیدہ تھے۔
"سر جوروشن پتھرنظر آتے تھے، پانی خشک ہو جانے کے بعد ان کا کیا ہوا ؟" سوال رینا نے کیا تھا ،اور رایل کے بازو کو سختی سے پیچھے ہٹا کر کیا تھا۔
’’ تمہاری اطلاع کے لیے عرض ہے پانی خشک نہیں چوری ہوا تھا۔‘‘رایل نے گردن موڑ کر اسے یاد دہانی کرائی۔
’’سر پلیز بتائیں!‘‘ وہ رایل کی بکواس نظرانداز کر گئی۔
"پانی خشک ہوا تو کچھ بھی نہ رہا۔نہ کچھ دکھائی دیا۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے ،کھدائی کی گئی تھی۔"
"کچھ ملا تھا پھر؟؟"
"ہاں!!" وہ بولے۔ "انسانی ڈھانچے اور کھوپڑیاں ملی تھیں!!"
رینا کے رگ و پے میں سنساہٹ سی دوڑ گئی۔جبکہ رایل کے منہ سے "واو" نکلا۔ کمبخت انجوائے کر رہا تھا۔
"میں نے کہا نا۔۔جھیل کے پاس اکثر لوگ گم ہو جاتے تھے ، "
’’لو اب یہ بھی کوئی مسئلہ ہے۔‘‘رایل ایک بار پھر شروع ہو گیا۔’’جھیل کا راستہ اتنا بھی مشکل نہیں ہے ،اگر مشکل تھا تو لوگ نقشہ لے جاتے ؟؟ویسے سیڑھیاں تو بنی ہوئی ہیں۔نیچے اتر کر جاؤ ،دیکھو اور واپس اوپر آ جاؤ، ایک بات بتائیں سر ۔۔۔۔ کیا یہ سیڑھیاں پہلے نہیں ہوا کرتی تھیں؟؟ "
وہ ابھی مزید بولنے لگا تھا جب انہوں نے ٹوک کر سرگوشی کی۔’’آہستہ بولو!‘‘
’’اور کم بولو!‘‘رینا کی نصیحت پر وہ بے اختیار چڑ گیا۔
’’میری مرضی میں کم بولوں یا زیادہ تمہیں کیوں تکلیف ہو رہی ہے؟؟‘‘
’سر آگے بتائیے..‘‘وہ رایل کی سنی ان سنی کیے مسٹر کونارڈ سے مخاطب ہوئی۔
..
’’بات راستے کی نہیں ہے بیٹے!بات یہ ہے کہ لوگ ملتے ہی نہیں تھے۔‘‘انہوں نے سر اٹھا کر اپنے آس پاس دیکھتے ہوئے اطمینان کیا جیسے کوئی ان کی طرف متوجہ تو نہیں ہے پھر بے حد پراسرار لہجے میں بولے،’’وہ غائب ہو جاتے تھے!‘‘
’’کیا وہ جادوگر تھے؟؟‘‘رایل نے چونک کر پوچھا، انکل صاحب گہری سانس کھینچ کر ذرا سی خفگی دکھاتے کھڑکی کی طرف رخ کر کے بیٹھ گئے۔
"بدتمیز! انہیں بات تو مکمل کرنے دو!" رینا نے اسے دبی آواز میں جھاڑ دیا۔
"ہاں اب ان کی باتیں تو بہت دلچسپ لگ رہی ہیں تمہیں، میں بولوں تو تمہارا دماغ دکھتا ہے، اور سر دکھتا ہے ،اور کان دکھتے ہیں!!"
رینا محض گھور کر رہ گئی۔
"ویسے مسٹر کونارڈ! آپ نے بہت دلچسپ کہانی سنائی ہے ہمیں!! "
"یہ کہانی نہیں حقیقت ہے!!" انکا سر کھڑکی کی جانب رہا۔
"اوہ اوکے!" پھر وہ آنکھوں میں چمک لیے رینا کی طرف جھکا۔
’’ویسے اس جھیل والے ٹاپک پر زبردست قسم کی کہانی لکھی جا سکتی ہے۔ سر کیا آپ رائٹر ہیں؟‘‘ساتھ ہی اس نے مسٹر کونارڈ سے پوچھا۔
’’نہیں!‘‘
’’کیا تم رائٹر ہو!؟‘‘اس نے پھر رینا سے پوچھا
’’اس سوال کا کیا مقصد؟‘‘اس کا لہجہ سرد ہوا تھا۔
’’ میں نے تمہیں مشورہ دینا تھا۔جھیل پر ایک عدد کہانی لکھ ڈالو جس کا ٹائٹل ہونا چاہیے۔۔۔ پانی چور گینگ! ‘‘ اس نے ڈرامائی انداز میں ہاتھ اٹھا کر جملہ مکمل کیا۔
’’اپنے مشورے پر خود عمل کرو۔‘‘ سرد مہری سے جواب دیتی وہ باہر دیکھنے لگی
’’ارے واہ !!! اس کا تو مجھے خیال ہی نہیں آیا۔ میں خود اس ٹاپک پر ایک زبردست کہانی لکھ سکتا ہوں۔ہیرو کا نام رایل ہو گا ۔وہ کسی ٹاون میں جھیل کی مسٹری solve کرنے آئے گا۔دور دراز علاقے میں ایک گینگ آباد ہو گا جس کی لیڈر ایک خونخوار چڑیل ہو گی۔وہ مرچیں بہت کھاتی ہو گی اور منہ سے ہر وقت
...
شعلے اگلتی ہو گی۔اسی نے اپنے گینگ کو پانی چرانے پر لگا رکھا ہو گا۔ رایل کو وہ چڑیل سنسان جگہوں پر نظر آیا کرے گی۔فلک شگاف چیخوں کے ساتھ اسکا استقبال کیا کرے گی۔ رایل کو بعد میں معلوم ہو گا کہ وہ چڑیل درحقیقت اسکا خون پینا چاہتی ہے۔‘‘
’’شٹ اپ!‘‘وہ دبی آواز میں غرائی۔
’’لو تم کیوں غصہ ہو رہی ہو؟تمھارا تو میں نے نام ہی نہیں لیا۔ویسے بہت ذہین ہو تم۔اڑتی ہوئی چڑیا کے پر گن لیتی ہو اور جان جاتی ہو کہاں تمھاری بات ہو رہی ہے اور کہاں نہیں…‘‘
’’اگر تم نے اپنا منہ بند نہ کیا تو میں تمھارا قتل کر دوں گی۔‘‘ اس نے دانت پیس کر دھمکی دی۔
’’سر آپ گواہ رئیے گا اس لڑکی نے ابھی ابھی مجھے قتل کی دھمکی دی ہے…‘‘مسٹر کونارڈ دھیرے سے مسکرا کر رہ گئے۔
رینا گہری سانس لے کر باہر دیکھنے لگی۔ خیالات کا تانتا پھر سے بندھ چکا تھا۔
مسٹر کونارڈ کہہ رہے تھے جھیل منفرد اور خوبصورت تھی۔ڈائری میں بھی اسی بات کا ذکر تھا۔مگر جھیل کی موجودہ حالت اس بات کی نفی کرتی تھی۔ دیکھ کر لگتا ہی نہ تھا کہ یہ جگہ کبھی عجائب دنیا رہی ہوگی۔ پانی کا خشک ہونا اور جگہ کا ویران ہو جانا کس حد قابل قبول تھا مگر اس کے ساتھ جو کہانی یہ صاحب سنا رہے تھے وہ ٹازین کے سب سے بڑے اور ایڈوانس شہر ڈوسان سے تعلق رکھنے والے ان دونوں باشندوں کے لیے منطقی نہیں تھی۔اگر یہ باتیں اسے تب بتائی جاتیں جب وہ ڈوسان میں تھی تو وہ یقیناً انہیں خیالی باتوں کے علاوہ کچھ نہ سمجھتی، مگر اب صورتحال مختلف تھی۔ یہاں پیش آنے والے کچھ واقعات نے نہ صرف اسے الجھا دیا تھا بلکے اس کی سوچ بھی بدل دی تھی۔
وہ اب پہلے کی طرح ان باتوں نظر انداز نہیں کر پاتی تھی اور نہ ہی آنکھوں دیکھی چیزوں کو وہم بنا سکتی تھی۔سب کچھ واضح تھا۔
خدا جانے ڈائری کا کیا قصہ تھا۔جگہ کی مناسبت سے ابھرتے الفاظ آخر اس سے کیا چاہتے تھے۔کیا ایسا ممکن تھا یا وہ پاگل ہو چکی تھی؟اور وہ سنہرے لمبے بالوں والی لڑکی..سایا؟؟..وہ نہ
...
جانے کون تھی اور اسے کیوں دکھائی دیتی تھی؟ اور وہ نوجوان کون تھا جو اپنے پراسرار حلیے اور منفرد انداز سے اس دنیا کا باسی لگتا ہی نہیں تھا ۔اور وہ نیم پاگل لڑکی ماروی!!! رینا نے بے اختیار سر اٹھا کر اسے ہی تلاشا۔
وہ اکیلی وہاں کیا کر رہی تھی؟؟کیا وہ بھی ان کی طرح جھیل دیکھنے آئی تھی؟ اگر ایسا ہے تو وہ جنگل میں کیوں چلی گئی؟؟ اور پھر پوچھنے پر اس کا انوکھا جواب،’’مجھے خود معلوم نہیں میں یہاں کیسے آ گئی!‘‘
وہ خیالات میں ڈوبی کھڑکی سے باہر دیکھے جا رہی تھی ، سوچے جا رہی تھی۔
" میری خواہش ہے ،اور خواب بھی .... میں زرکاڈ کی برف پوش چوٹیوں کو سر کرنا چاہتا ہوں۔"
مسٹر کونارڈ اور رایل کے مابین ایک بار پھر گفتگو شروع ہو چکی تھی۔
’’تو تم ایک کلائمبر ہو؟؟‘‘
"نہیں surviver ہوں! میں آریسن سے زندہ بچ کر آ گیا تھا، زرکاڈ سے نہیں آنا چاہتا !!" جانے اس کے جملے میں مزاح کا ایسا کونسا عنصر تھا کہ مسٹر کونارڈ قہقہ لگا کر ہنسے ، وہ بھی مسکرایا۔
"تم آریسن پر چڑھے ہو، اور کہتے ہو کلائمبر نہیں ہو!"
" مجھے لگتا ہے جو چوٹی سر کر لے ، ٹائٹل کا حقدار بھی وہی ہوتا ہے!"
"تم میں بہت جوش ہے لڑکے ، آریسن کوئی چھوٹی پہاڑی نہیں ہے ،اس کا ایک حصہ بھی سر کر لو نا،تو سمجھو تم نے کمال کر دیا!!"
"زرکاڈ کے سامنے آریسن ایک چھوٹا سا بچہ ہے سر!"
وہ اس موازنے پر ایک بار پھر ہنسے تھے۔
"اگر میں تھوڑی سی ہمت اور دکھا دیتا،تو میں ڈوسان کا سب سے چھوٹا کلائمبر بن جاتا!اس وقت میری عمر سولہ سال تھی۔ اب میں انیس کا ہونے والا ہوں!"
’’ویری گڈ !سولہ سال کی عمر میں گئے تھے۔کمال ہے!’’وہ رایل سے کافی متاثر نظر آ رہے تھے۔
’’مگر جو عملہ تمھارے ساتھ تھا ان کی حالت زار پر بھی روشنی
...
ڈال دو۔‘‘ رینا کا لہجہ طنزیہ ہوا ۔
۔’’سب کو بہت مزا آیا تھا!‘‘دانت پیس کر اس نے کہا۔
’’رئیلی؟!‘‘رینا کو حیرت ہوئی۔’’تم انہیں سونے دیتے تھے؟ بولنے دیتے تھے؟ نان سٹاپ زبان کو روک لیتے تھے؟‘‘
’’بڑے ہی عجیب سوال ہیں تمھارے۔انفیکٹ جب میں واپس چلا گیا تھا تو سب بہت اداس ہوئے تھے،‘‘
’’میں نہیں مان سکتی!‘‘ اسے یقین تھا سب نےشکر ادا کیا ہو گا۔
’’نہ مانو!‘‘ وہ اڑا رہا کہ سب اداس ہوئے تھے۔
"تو پھر واپس کیوں آئے ؟" مسٹر کونارڈ نے پوچھا۔
وہ کچھ کہتے کہتے ایک دم سے یوں رکا جیسے ان جانے میں وہ ایسی بات بتانے لگا ہو جو اسے نہیں بتانی چاہیے۔
اسی لمحے بوگی ایک بہت بڑے گیٹ کے سامنے روک دی گئی۔ جس کے اطراف میں پتھروں پر آگ کے آلاو روشن تھے۔گیٹ قدیم ہونے کے باجود کافی مضبوط نظر آتا تھا۔سیڑھیوں پر دو مصلح دربان بھی موجود تھے۔
دروازہ کھول دیا گیا۔سب لوگ باری باری اترنے لگے۔ رایل انتظار نہیں کر سکتا تھا تبھی وہ کھلی کھڑکی سے باہر کود گیا۔رینا بھی وہاں سے بآسانی نکل سکتی تھی مگر اسے انسانوں کی طرح نکلنا زیادہ عزیز تھا۔
بوگی سے باہر نکلنے کے بعدوہ باقی لوگوں کے ساتھ ایک قطار میں گیٹ کھلنے کا انتظار کرنے لگی۔ ماروی دھڑا دھڑ قدیم دروازے کی تصویریں لے رہی تھی۔ رایل اس کے پیچھے کھڑا اپنے بیگ سے کچھ نکالنے کی کوشش میں ہلکان ہو رہا تھا۔۔
گیٹ کھول دیا گیا تو سب لوگ اندر جانے لگے۔ رینا نے مڑ کر اسے دیکھا۔وہ ابھی تک بیگ میں کچھ ڈھونڈ رہا تھا۔
’’مل بھی جاؤ اب!‘‘جھنجھلا کر اس نے اپنی مطلوبہ چیز سے کہا۔
’’اندھے کنویں سے بھی کبھی کوئی کام کی چیز ملی ہے؟آفٹر آل فضول لوگوں کے پاس فضول چیزیں ہی ہوتی ہیں۔‘‘
رایل نے سلگ کر سر اٹھایا۔
’’فضول لوگوں کو ہر کام کی چیز اور کام کے لوگ فضول نظر آتے ہیں۔‘‘
اب رینا سے بہتر کون جانتا تھا کہ اس کا بیگ کن چیزوں سے
...
بھرا پڑا تھا، اور جن چیزوں سے بھرا پڑا تھا وہ رینا کی نظر میں کام کی ہرگز نہیں تھیں۔
پرفیومز، ڈائریز، چاکلیٹس، پیچ کس، چھوٹی بڑی ربر کی مختلف اشیاء، ایک عدد اکسٹرا جوتوں کا جوڑا، کتابی سائز کی اسکرین، گلاسز، مختلف رنگوں اور پنز کا نا ختم ہونے والا سلسلہ، چھوٹی موٹی تاریں اور ان سے تیار شدہ عجیب و غریب نمونے،چھوٹے مگر اصلی روباٹس، گیندیں، کلائی کی گھڑیاں، میگزینز، دو عدد کیمرے جنہیں رایل نے اپنی دن رات کی محنت سے عجیب و غریب نمونہ بنا رکھا تھا اور تو اور ٹی۔وی کا ریموٹ بھی!!!
رایل نے سفر کے دوران ایک ایک چیز نکال کر دکھائی تھی۔ بھلا گھر سے نکلتے وقت ان اشیاء کو ساتھ لے جانے کی کوئی تک بنتی ہے؟؟ رینا کی نظر میں تو بلکل بھی نہیں جبکہ رایل کے نطر میں ضرور بنتی تھی۔
’’انسان کو کسی بھی وقت کسی بھی چیز کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔‘‘وہ کہہ رہا تھا۔
’’یہ تم نے خود ہی کہہ دیا انسان کو۔یعنی’’انسان‘‘کو۔اور صرف ضرورت کی اشیاء کی ضرورت پڑتی ہے فضول چیزوں کی نہیں۔‘‘اس نے تلملا کر کہا۔
"واٹ ڈو یو مین بائی انسان؟؟؟" رایل کو برا لگ گیا۔ ،’’چڑیل!!ایلیَن!جھیل آسیل کی سگی!‘‘
’’اپنی بکواس بند کرو تم..‘‘وہ چلائی۔
’’تمہیں کیوں مسئلہ ہو رہا ہے؟؟ بیگ تو میں نے اٹھانا ہے۔‘‘وہ لڑ پڑا
’’ہاں مجھے کیا؟‘‘رینا نے کندھے اچکائے۔یہ سچ تھا کہ بیگ رایل نے اٹھا رکھا تھا اور الجھن اسے ہو رہی تھی۔
’’یہ کسی نوجوان کا نہیں دو سال کے بچے کا بیگ ہے۔اس میں کام کی چیز صرف لالی پاپ ہی ہو سکتی ہے۔‘‘اس نے سرد مہری سے کہا۔
’’مل گیا!‘‘
رینا نے مڑ کر اس چیز کو دیکھنا چاہا جو کام کی ہونے کے ساتھ ساتھ مل ہی نہیں رہی تھی۔
لالی پاپ!وہ ہکا بکا رہ گئی۔
’’بہت مزے کا ذائقہ ہوتا ہے اس کا۔‘‘وہ بیگ کندھے سے لٹکانے کے
...
بعد ریپر اتارتے ہوئے بتانے لگا۔
’’اب یہ مت کہنا کہ لالی پاپ بچے کھاتے ہیں وغیرہ وغیرہ….‘‘وہ اس کے سامنے ریپر لہراتے ہوئے بولا،’’اس پر یہ کہیں نہیں لکھا کہ بڑے نہیں کھا سکتے یا صرف بچے کھا سکتے ہیں اور اگر بچوں کی بات ہے تو ہم بھی تو اپنے ماں باپ کے بچے ہی ہیں، کونسا بڑے ہیں۔۔۔۔‘‘
’’اف!‘‘رینا جھنجھلا گئی۔
’’تم دونوں کی باتیں ختم ہو گئی ہوں تو برائے مہربانی اندر تشریف لے آئیے۔ہم نے دروازہ بند کرنا ہے۔‘‘انہیں گیٹ پر کھڑے دربان کی چنگھاڑ سنائی دی۔شدید غصے میں لگتا تھا وہ۔
وہ اپنی لڑائی ملتوی کر کے معذرت چاہتے اندر داخل ہو گئے۔
گائیڈ صاحب کوئی پانچویں بار لوگوں کی گنتی کر چکے تھے، ان دونوں کو آتے دیکھا تو جھنجھلا اٹھے۔’’کہاں تھے تم دونوں….؟؟‘‘
’’ہم باہر تھے ، لڑ رہے تھے۔‘‘جواب رایل نے دیا تھا۔
’’وجہ!؟‘‘ گھور کر پوچھا گیا
’’ہمیں ایک اہم مسئلہ سلجھانا تھا..‘‘
’’تو کیا مسئلہ سلجھا لیا ہے تم دونوں نے؟؟‘‘گائیڈ نے دانت پیسے۔
’’نہیں!‘‘رایل نے نفی میں سر ہلایا۔’’ہم بعد میں سلجھا لیں گے آپ میوزیم لے جائیں۔دیر ہو رہی ہے۔گھر بھی جانا ہے ہمیں۔ آخر آپ لوگ وقت کی پابندی کیوں نہیں کرتے؟؟‘‘گائیڈ نے رایل کو ایسے دیکھا جیسے آنکھوں ہی آنکھوں میں کھا جائے گا پھر خود پر ضبط کے پہرے بٹھاتے ہوئے جھٹکے سے پلٹ گیا…
راہداری کے اختتام پر جو دروازہ تھا وہ ایک بہت بڑے ہال میں کھلتا تھا جس کی چھت چمکتے دمکتے نگوں اور قیمتی پتھروں سے آراستہ تھی۔چھت پر قدیم زمانے کے انوکھے اور پرکشش نقش و نگار بنے ہوئے تھے جن کا عکس فرش پر منعکس ہو کر اپنی مثال آپ بنا ہوا تھا۔ سامنے سیڑھیاں تھیں جن پر سرخ قالین پھیلا ہوا تھا۔دائیں بائیں دیواروں پر سرخ دبیز پردے لٹک رہے تھے۔ہر دو پردوں کے درمیان پھولوں کی پینٹنگز آویزاں تھیں۔ ان پینٹنگز کے نیچے خوبصورت گملے اور صراحیاں رکھی تھیں۔
’’یہ تو محل کا اندرونی منظر لگتا ہے۔‘‘ ماروی کے منہ سے
...
بےاختیار نکلا تھا۔
’’پیاری لڑکی!‘‘ خاتون نے مسکرا کر ماروی کو دیکھا،’’یہ محل ہی تو ہے۔بیرینڈور کے لوگ قدیم زمانے میں اسی قسم کے محل نما گھر زمین کے اندر بنایا کرتے تھے۔ایک گھر جو زمین پر ہوتا تھا بلکل ویسا ہی گھر زمین کے اندر بھی ہوتا تھا۔‘‘
ماروی نے سمجھداری سے سر ہلا دیا جبکہ رایل کو خاتون کی بات سے کھجلی سی ہونے لگی، جھٹ سے بول اٹھا،’’کتنے پاگل تھے۔‘‘
خاتون نے باقاعدہ مڑ کر رایل کو دیکھا جو لالی پاپ دانتوں میں دبائے یہاں وہاں دیکھ رہا تھا۔
’’اسے پاگل پن نہیں ذہانت کہتے ہیں۔‘‘انہوں نے سرد لہجے میں کہا،
’’بھلا یہ کیسی ذہانت ہے؟‘‘ اس نے سوالیہ ابرو اٹھائی۔
’’وہ اپنی حفاظت کے لیے ایسا کرتے تھے۔‘‘
’’کس چیز سے حفاظت کے لیے؟؟‘‘رایل نے پوچھا۔
رینا نے ان خاتون کو چونکتے دیکھا۔ وہ یک دم سنبھل کر مسکرائیں،’’ہمیں جو کچھ معلوم ہے اس کے مطابق وہ لوگ حفاظت کے لیے ایسا کرتے تھے۔یقینا جنگلی جانوروں سے بچنے کے لیے…‘‘
’’فائن!‘‘رایل نے سر ہلا دیا۔
وہ سب سیڑھیاں چڑھ کر دوسری منزل پر پہنچ گئے۔سامنے ایک طویل راہداری کے اطراف میں کئی دروازے تھے۔گائیڈ نے پہلا دروازہ دھکیل دیا۔
سب اپنی سانسیں روکے اندر داخل ہوئے۔ ہلکی ہلکی موم بتیوں کی روشنی میں اندر کا جائزہ لینا قدرے مشکل تھا۔
وہ دیدے پھاڑے اندھیرے میں دیکھنے کی کوشش کر ہی رہے تھے جب گائیڈ نے لائیٹس آن کر دی تھیں۔ اک شور سا اٹھا اور پاس کھڑی ماروی چیختے ہوئے رینا ابراہیم سے لپٹ گئی تھی۔
Read Zanzaniya Episodes
👉Episode 01 👉Episode 02 👉Episode 03 👉Episode 04 👉Episode 05 👉Episode 06 👉Episode 07 👉Episode 08