*Zanzaniya novel -Chapter-3*
*لفظوں کی راکھ*
*By Husna Hussain*
اگلی صبح ناشتے کے فوراً بعد وہ کافی کا مگ ہاتھ میں لیے اپنے کمرے میں آ گئی تھی۔اس نے پردے کھینچ کر ہٹائے تو کھڑکیوں پر دستک دیتی نرم دھوپ فرش پر اتر آئی۔دیواروں کی سفیدی نکھر گئی،لکڑی کا فرش چمک اٹھا ۔
کرسی کھینچ کر بیٹھتے ہوئے اس نے دراز سے کتاب نکال کر رائٹنگ ٹیبل پر رکھ دی تھی۔کافی کا گھونٹ لے کر اس نے بےحد
احتیاط سے کور اٹھا کر صفحہ پلٹا تھا۔
پہلے صفحے پر سیاہ روشنائی سے ایک عبارت لکھی تھی۔
’’میں وہ رات ہوں جس کے دامن میں نہ چاند ہے نہ ستارے!‘‘
(M.A)
صفحہ الٹاتے ہوئے اس پر انکشاف ہوا جسے کتاب سمجھا تھا وہ ایک ڈائری تھی۔
"سمجھ نہیں آ رہا اپنی سترہویں سالگرہ کے موقع پر ملنے والے اس تحفے پر کیا لکھوں ؟خوشی کا اظہار کروں یا اس غم کا جو حال ہی میں مجھے ملا ہے۔یا ان احساسات کا ذکر کروں جو اس نئے گھر کو دیکھتے ہی میرے دل میں اجاگر ہوئے ہیں؟آرشیڈس میں قید کا احساس بہت بھاری تھا مجھ پر۔اور آنیکا کی جدائی سے تو زندگی میں ایک خلاء سا آ گیا تھا۔ لیکن یہاں۔۔اس نئے شہر میں ۔۔۔۔ اس نئے گھر کی دہلیز پر مجھے آزادی کا احساس ہوا ہے۔اب میرے بھی اپنے پر ہیں اور میں بھی اڑان بھر سکتی ہوں۔"
آزادی؟ رینا چونک گئی۔منار ہاوس کا پہلا منظر اس کے اندر بھی تو کچھ ایسے ہی احساسات جگا گیا تھا۔
"پر جانے کیوں بابا بےحد اداس ہیں۔وہ آرشیڈس کبھی چھوڑنا نہیں چاہتے تھے۔۔لیکن حالات کچھ ایسے تنگ ہوئے کہ ہمیں ہجرت کرنا ہی پڑی۔"
ارشیڈس؟؟؟؟رینا ایک بار پھر چونک کر رک گئی تھی۔ آج سے قبل اس نے کسی ملک ، شہر یا جگہ کا نام آرشیڈس نہیں سنا تھا۔
" مجھے تو یہ شہر بہت خوبصورت لگا ہے۔ آرشیڈس سے بھی زیادہ۔۔! میں نے کہا نا!! وہاں مجھے ہمیشہ گھٹن کا احساس ہوتا رہا ہے۔
بابا نے بتایا ہے تم بہت ہی خاص ڈائری ہو۔ تمھارا ایک نام بھی ہے۔میں حیران ہوئی تھی۔بھلا کاغز کے خالی پنوں کا بھی کوئی نام ہو سکتا ہے؟ انہوں نے کہا ہاں ہے! تمھارا ایک نام ہے۔
میں امر نہیں ہوں ،شاید تم بھی نہیں ہو۔
مگر تم میں جو لفظ میرے سما جائیں،
ممکن ہے وہ میرے بعد بھی زندہ رہ جائیں۔ "
کچھ سطور چھوڑ کر لکھائی رف ہو گئی۔
" پیاری ادیرا (Adira)....
میرا ہر راز تم میں محفوظ،
میری ہر سوچ تم میں ٹھہری رہے ۔
آسیہ جھیل کے اس پانی کی طرح....
سیاہ ہو کر ،
مردہ بن کے بھی
کسی ڈھانچے میں ڈھل کر،
ماضی کا حصہ بن کے بھی... "
کپکپاتی انگلیوں سے لکھی جانی والی وہ شاعرانہ عبارت چند نقاط کا اضافہ کرتی ختم ہو گئی۔
آنکھوں میں بیک وقت الجھن اور تجسس لیے اس نے ادھ جلے صفحے کو ایک بار پھر الٹا دیا۔
صفحہ دوئم :
بابا نے اس گھر کو ایک نام دیا ہے۔منار ہاوس!!
جانے کیوں انہیں پر چیز کو نام دینے کی عادت سی ہے۔(شاہ بلوط کو وہ سفیرا کہہ رہے تھے) ۔۔۔۔۔خیر! میں نے اپنا کمرہ آج سیٹ کر لیا ہے۔عادت سی ہے ایک چھوٹے سے بیڈ پر سونے کی ۔اب اتنے بڑے بیڈ پر ٹھیک سے نیند نہیں آتی ! خالی ریک بےچین کرتا ہے ۔کتابوں کا جنون جو ہے مجھے۔ پاس میں ہی ایک بوکسٹور ہے۔بابا کہہ رہے تھے میں وہاں سے کتابیں خرید سکتی ہوں۔لیکن ادیرا!! کتابیں تو اپنا قاری خود چنتی ہیں۔اگر جو میں کسی کتاب کو پسند نہ آئی تو ؟ اگر جو ہاتھ لگانے پر میری انگلیاں جل اٹھیں تو ؟کیا تم نے کبھی کسی کتاب سے نکلتی ہوئی آگ دیکھی ہے ؟ میں نے دیکھی ہے۔۔ اور کئی بار دیکھی ہے۔ کہا نا! کتابیں ہر کسی کے لیے نہیں ہوتیں!!
صفحہ سوئم :
بیرینڈور میں یہ میرا تیسرا دن ہے۔سیڑھیوں پر بیٹھی ہوں اور لکھ رہی ہوں۔آس پاس ہریالی ہے اور خوبصورتی ہے ،اور دل میں سکون سا اترا ہوا ہے۔ آرشیڈس میں تو صرف اندھیرے ہوا کرتے تھے۔ دن میں بھی رات کا سماں ہوتا تھا۔ گھنے درخت جھکے رہتے تھے اور خاموشی اتنی بھیانک ہوتی تھی کہ آہٹ سے بھی ڈر لگتا تھا۔ مگر یہاں سب کتنا پیارا ہے،کتنا انوکھا، کتنا منفرد ہے۔۔ یہ درخت، یہ کھلی فضاء ،یہ ہریالی اور پہاڑ۔۔۔ یہ سب آرشیڈس میں کیوں نہیں ہے؟ وہاں کیوں صرف موت کا بسیرا ہے؟ وہاں کیوں صرف خوف کی ہوائیں چلتی ہیں؟ وہاں کیوں انسان ۔۔انسان نہیں لگتے ؟ اور کیوں جنگل میں اب کوئی رہ نہیں سکتا۔۔ وہاں جہاں میں رہتی تھی۔۔بابا رہتے تھے۔۔"
چند سطور کے بعد روشنائی بدل چکی تھی،لکھائی بکھر چکی
تھی، کپکپاتی انگلیوں کا تاثر ہر ایک حرف سے جھلکتا تھا۔
"قدموں کی آہٹ تھم چکی۔تعذیب کا شور مٹ چکا۔وہ راکھ جو باقی رہ گئی تھی... راون سلا کے گرد و نواح میں بکھرتی جا رہی ہے ۔وہ آگ جو بجھائی جا رہی تھی،وہ مزید بھڑکتی جا رہی ہے۔"
چند لمحوں کا توقف کیے اس نے آگے پڑھا۔
مونار بہت بڑا ہے،اتنا بڑا ہے کہ چلتے چلتے گم ہو جاتی ہوں،گول گول بس گھومتی ہی رہتی ہوں،سیڑھیاں اترنا بہت اچھا لگتا ہے مجھے ۔۔۔اور جب میرے گیت کی آواز خالی راہداریوں میں گونجتی ہے تو اپنا آپ کسی شاہزادی سے کم نہیں لگتا۔مگر میرے گیت بابا کو پریشان کرتے ہیں، وہ میری آواز سنتے ہیں اور کان پر ہاتھ رکھ لیتے ہیں ۔ دادی کہا کرتی تھیں انہیں میری ماں یاد آتی ہے ، میری آواز سے ان کا اثر جھلکتا ہے ، میرے وجود سے ان کی شبیہہ نظر آتی ہے۔"
اور ایک بار پھر لکھائی بدل چکی تھی۔موضوع بدل چکا تھا۔
"جس کی بصارت چھین لی جائے، اور قوت گویائی مکا دی جائے ، اور جس کے وجود کو آگ میں مٹا دیا جائے... تو وہ انصاف کے لیے کس کا در کھٹکھٹائے ؟ "
اس سے آگے پچھلی بات ایک بار پھر مکمل ہو رہی تھی۔
"آج ہی بابا نے مرمت کا کام مکمل کروایا ہے ،عقبی دروازہ بدلوا دیا ہے۔شام میں ذرا بادل چھائے تو انہوں نے گھر کی تمام کھڑکیوں اور دروازوں پر لاک لگا دیئے، بہت بےچین ہیں بابا! ابھی تک جاگ رہے ہیں ،نیند تو مجھے بھی نہیں آ رہی۔ ادیرا؟ کیا تم بھی جاگ رہی ہو؟
اب ہم آرشیڈس میں نہیں ہیں لیکن بابا پھر بھی بہت پریشان نظر آ رہے ہیں۔"
"بیرینڈور کے لوگ بارش کی راتوں میں باہر نہیں نکلتے!"آج بابا نے اخبار پڑھتے ہوئے مجھ سے ایک عجیب بات کہہ دی ہے.میں حیران ہو کر انہیں دیکھتی رہ گئی۔ انہوں نے مجھے نصیحت کی میں بھی بارش کی راتوں میں ہرگز باہر نہ نکلوں۔ دروازے اور کھڑکیاں بند رکھوں ۔اور کسی بھی دستک پر دروازہ نہ کھولوں۔
"کیوں؟" میں نے حیران ہو کر انہیں دیکھا۔ انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا ۔بس سختی سے تاکید کر کے اٹھ گئے۔میں پریشان سی ہو رہی ہوں۔دن بدن ان کی پابندیاں بڑھتی جا رہی ہیں۔پہلے انہوں
نے مجھے پرندہ رکھنے سے روکا تھا اب بارش سے بھی روک رہے یں۔ بابا ایسا کیوں کہہ رہے ہیں ؟ کیا انہیں نہیں معلوم مجھے بارشیں کتنی پسند ہیں ۔خصوصا شام کی بارشیں کتنا پرسکون کرتی ہیں مجھے۔"
آج صبح سویرے ایک عجیب واقعہ رونما ہوا۔ میں پارک سے واپس گھر آ رہی تھی کہ اچانک ایک آٹھ سالہ لڑکی نے میرا راستہ روک لیا۔اسکے ہاتھوں میں پھولوں کی ایک ٹوکری تھی۔سرخ ،سفید اور جامنی پھولوں سے بھری ہوئی۔غالبا اس نے پھول ابھی تازہ توڑے تھے ۔ ان کی مہک تھی کہ اطراف میں بکھری ہوئی تھی۔ اس نے میرے قریب آ کر باکسٹ میرے آگے کر دی۔اشارہ تھا میں اس میں سے کوئی پھول اٹھا لوں۔میں نے ایک لمحے کے لیے اسے دیکھا پھر جامنی پھول اٹھا لیا۔ اس سے پہلے کہ میں شکریہ ادا کرتی ،اس نے رخ بدلا اور جھاڑیوں میں گم ہو گئی۔ میں نے پھول کو قریب کر کے اسے سونگھا اور واپس گھر آ گئی۔ سیڑھیاں چڑھ کر اپنے کمرے تک جاتے جاتے کیا دیکھتی ہوں کہ پھول میری انگلیوں میں راکھ ہو کر بکھر گیا ہے۔ کتنی ہی دیر تک تو میں حیرت و استعجاب کے ساتھ اپنی جگہ کھڑی رہی ہوں۔ یہ کیسے ہوا تھا ؟ پھول تو تازہ تھا،اسکی خوشبو آس پاس بکھری ہوئی تھی۔ تو پھر یہ اچانک کیا ہوا؟
صفحہ:7
نیسا ہمارے پڑوس میں رہتی ہے۔ کل پارک میں اس سے سرسری سی ملاقات ہوئی تھی۔ اس نے مجھے بتایا وہ اپنے والد کے ساتھ آسیل جھیل دیکھنے جا رہی ہے۔ "آسیل جھیل؟ یہ کہاں ہے؟" میں نے اس سے پوچھا۔ وہ اس جھیل کی اتنی تعریفیں کر رہی تھی کہ میرا دل چاہا میں بھی دیکھنے جاؤں۔
" بھئی ایسی جگہوں کے ایڈریس نہیں لیے جاتے، خود ڈھونڈنا پڑتا ہے!" ہنس کر اٹھ گئی۔ بولی دن میں دیکھنے کا وہ مزا نہیں،جو رات کی تاریکی میں ہے۔پھر اس نے مجھے تصویر دکھائی۔
" کیا یہ حقیقت ہے ؟ "میں نے حیران ہو کر پوچھا۔
"جب تک آنکھوں سے نہیں دیکھو گی،اسے اپنا وہم ہی سمجھو گی!"۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"
چند سطور چھوڑ کر لکھا تھا۔
"وہ خوبصورتی جو آسیل میں تھی،وہ اب کہیں نہیں ہے، وہ پانی جو زندگی کی علامت تھا کبھی،وہ اب کہیں نہیں ہے ،
جو پھول سفید تھے، وہ سیاہ ہو چکے ،
جو محافظ تھے اس کے ،وہ فنا ہو چکے ،
----
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہاں جس درخت پر اس نے اشارہ کر دیا، اسی درخت پر میں نے اپنا نام دھر دیا۔
۔۔۔۔
آج اس گھر میں ہمارا پانچواں دن ہے ۔ اور میں باہر سیڑھیوں پر بیٹھی اس وقت بیرونڈور کی پہلی بارش کا انتظار کر رہی ہوں ۔ سورج غروب ہو رہا ہے۔ بادل ہر طرف پھیل رہے ہیں۔ ہوائیں تیز ہو رہی ہیں۔
مجھے بابا کی آواز سنائی دے رہی ہے۔ وہ مجھے اندر بلا رہے ہیں۔لیکن میں لکھنا چاہتی ہوں۔آج جو کچھ ہوا۔وہ سب بتانا چاہتی ہوں۔میں نے نئی کتابیں لی ہیں۔اور ایک لباس خریدا ہے۔ینزا بازار میں مجھے ایک بریسلٹ تحفے میں ملی ہے۔ میں تو اس قدر نفیس زیورات دیکھ کر دنگ رہ گئی ہوں۔۔۔۔
نیلوفر خاتون کی انگلیوں میں مہارت ہے۔اس کی جیولری سیاح بہت شوق سے خریدتے ہیں۔وہ آئینے بھی بیچتی ہے۔ایک آئینہ میں نے بھی خریدا ہے۔ لیکن یہاں بھی انہونی ہوئی ہے۔ میں آئینہ پسند کر ہی رہی تھی کہ اس نے مجھے ایک سیاہ آئینہ اٹھا کر پکڑا دیا ۔ بولی ،اس نے تمہیں پسند کیا ہے!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"
شام کے دس بج رہے ہیں۔ابھی کچھ دیر پہلے ہی میں گھر لوٹی ہوں۔بابا ابھی تک صدمے میں ہیں۔ انہیں میرے زندہ سلامت لوٹ آنے پر یقین نہیں آ رہا۔کئی بار غم اور غصے میں آ کر انہوں نے میرے ہاتھ تھامے ،میری آنکھوں میں دیکھا، میری بازوؤں کو ٹٹولا۔کئی بار مجھ سے کسی چوٹ ،کسی زخم کا پوچھا۔میں خود شاک میں ہوں کچھ کہہ نہیں پائی۔ اب کمرے میں خاموش
بیٹھی ہوں لیکن جسم کانپ رہا ہے۔ زہن ابھی بھی ماؤف ہے۔ سمجھ نہیں آ رہا میرے ساتھ یہ کیا ہوا ہے۔ ادیرا!!! میں بہت خوفزدہ ہوں!
یہ بارش کی راتیں۔۔۔۔ یہ صرف راتیں نہیں ہیں۔ بارش صرف بارش نہیں ہے۔میرا سانس ایک بار پھر پھول رہا ہے،ہاتھ کانپ رہے ہیں۔بمشکل لکھ پا رہی ہوں۔۔۔۔
یہ تب کی بات ہے جب میں سیڑھیوں پر بیٹھی تھی اور بابا مجھے اندر بلا رہے تھے۔مجھے اچھی طرح سے یاد ہے میں کچھ بدمزہ ہو کر اندر جانے کے لئے اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔اور تب مجھے سڑک کے اس پار جھاڑیوں کے بیچ و بیچ ایک لڑکی دکھائی دی۔سر اٹھائے وہ مجھے ہی دیکھ رہی تھی۔اسکا سفید لباس خون سے سرخ ہو رہا تھا، چہرہ زخمی تھا،حالت ابتر تھی۔ اس نے ہاتھ اٹھاتے ہوئے مجھے اپنی طرف روتے ہوئے بلایا جیسے وہ مدد کے لیے پکارنا چاہ رہی ہو مگر آواز ساتھ نہ دیتی ہو۔بارش کی پہلی بوند میرے ماتھے پر گری۔ڈائری میرے ہاتھوں سے چھوٹ گئی اور میں سٹپس اتر کر پہلے لان کی طرف گئی اور پھر مجھے کچھ یاد نہیں کیا ہوا۔ذہن میں اندھیرا سا آتا ہے۔۔سر دکھنے لگتا ہے۔ مجھے نہیں معلوم میرے ساتھ کیا ہوا تھا لیکن پھر اچانک کسی نے ہاتھ پکڑ کر جھٹکے سے روکا تو میں ہوش میں آئی۔کیا دیکھتی ہوں جنگل میں ہوں۔تیز بارش میں بھیگ رہی ہوں۔ اور پھر مجھے وہ لڑکی نظر آئی۔۔۔وہ سامنے درخت کی ایک شاخ پر پنجوں کے بل بیٹھی ہوئی تھی۔اس کا سر لمبے سیاہ بالوں میں چھپا ہوا تھا۔اس کے حلق سے عجیب سی آوازیں آ رہی تھیں۔ مجھے ایسے محسوس ہوا جیسے میرے آس پاس کچھ ہے جسے میں دیکھ نہیں پا رہی۔ وہ آہٹ۔۔۔ وہ قدموں کی آواز تھی ادیرا۔۔۔ وہ آواز میرے پیچھے تھی۔ مجھے خیال آیا کسی نے مجھے پکڑ کر روکا تھا۔ اسی لمحے لڑکی نے اپنا سر اٹھایا اور میرے حلق سے چیخ نکل گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"
تحریر میں غرق رینا نے فورا سے صفحہ پلٹا مگر آگے کچھ نہ لکھا تھا۔ ڈائری کے بقیہ تمام صفحے خالی تھے۔ کہیں کوئی لفظ تھا۔نہ عبارت تھی۔
آنکھوں میں ناسمجھی کا تاثر لیے وہ کچھ دیر تک بیٹھی رہی۔ کیا یہ کسی کی آپ بیتی تھی؟تاریخ کے حساب سے جس تسلسل کے ساتھ واقعات درج تھے تو اسے یہی لگا۔مگر بارش کے حوالے سے جو اس نے پڑھا تھا ذہن کسی طور اسے قبولنے کو تیار نہ تھا۔ یقینا یہ کوئی خیالی تحریر ہو گی۔ یا کسی رائٹر نے اپنی کہانی
کے لیے کچھ جملے ،واقعات اور آئڈیاز تحریر کر رکھے ہوں؟؟ یا پھر کسی ہارر ناول کی سیٹنگ بیرینڈور پر رکھ دی گئی ہو گی۔ اس نے اپنے قیاس پر خود کو مطمئن کر لیا۔ڈائری بند کر کے دراز میں رکھ دی۔پھر اس نے سنہری تاروں سے لپٹا باکس اٹھا لیا۔
باکس خالی نہیں تھا۔اس میں کوئی چیز تھی جو حرکت دینے پر محسوس ہوتی تھی۔اس نے ہلا جلا کر اندر موجودہ چیز کا اندازہ لگانے کی کوشش کی مگر کامیاب نہ ہو سکی۔
کچھ دیر تک وہ پاسورڈ کے خانوں کو بے مقصد چھیڑتی رہی۔پھر باکس دراز میں رکھ کر کمرے سے باہر آ گئی۔راہداری میں شور مچا ہوا تھا۔ ایمی لیزا سے لڑ رہی تھی۔انہیں نظر انداز کیے وہ وہ باہر لان میں جا بیٹھی۔ موبائل ہاتھ میں تھا۔ وہ قریبی بوکسٹور کی لوکیشن چیک کرنے لگی تاکہ آج ہی کچھ کتابوں کی خریداری کر سکے۔
یکایک اسے اپنے چہرے پر نگاہوں کی تپش کا احساس ہوا۔بےاختیار سر اٹھایا تو نظر اپنے کمرے کی کھڑکیوں پر جا پڑی۔دائیں طرف سے سمٹا ہوا پردہ ایک دم سے برابر ہوا۔
اسی پل ایمی جھنجھلائی ہوئی باہر نکلی تو اسکا ارتکاز ٹوٹا۔ایمی نے لیزا کا پرس باہر کہیں دے مارا۔ "میں ایسی ہوں۔ میں ایسے ہی کروں گی!" لیزا نے اسے بالوں سے پکڑ لیا۔ اس سے پہلے کہ ان میں ہونے والی لڑائی کا رخ اس کی طرف مڑے ،موبائل ہاتھ میں دبائے وہ چپ چاپ باہر نکل گئی تھی۔ سڑک کنارے قدم دھرتے ہوئے گھر سے دور اور بہت دور ہوتی گئی۔ گردن موڑ کر پیچھے بھی دیکھا کہ لیزا یا ایمی میں سے کوئی آ تو نہیں رہا۔ آج وہ کسی بھی بحث ،لڑائی اور فضول سوال جواب کے لیے تیار نہیں تھی۔صد شکر کوئی نہیں آ رہا تھا! سکھ بھری سانس لے کر جیسے ہی پلٹی، اس کے قدم رک گئے۔آنکھوں میں بےیقینی کا تاثر ٹھہر گیا۔
اسکا راستہ ایک دس سالہ لڑکی نے روکا تھا،اس کے ہاتھوں میں پھولوں کی باسکٹ تھی ،اور چہرے پر ایسی مسکراہٹ جو آنکھوں تک نہ پہنچتی تھی۔ اس کے ماتھے پر بھرے ہوئے گھاؤ کا ایک نشان تھا جو آدھے چہرے سے پھر گال اور گال سے کان تک جاتا تھا۔
"بیرینڈور میں خوش آمدید!" اس نے پھولوں کی باسکٹ رینا کے سامنے کر دی۔ڈائری کی عبارت ایک منظر میں ڈھل چکی تھی۔ سرخ ،سفید اور جامنی پھول رینا کو منجمد کر گئے تھے۔
"لینا چاہو گی؟"
reader_content_pager
"کتنے کا ہے؟" اس کے لب ہلے،وہ اپنے اندر خدشات کی نفی چاہتی تھی۔
"میں قیمت پیسوں میں نہیں لیتی!"اسکی مسکراہٹ ویسی ہی تھی۔روباٹک سی۔۔چہرے کے خدو خال میں مصنوعی طور پر ڈھلی ہوئی۔آنکھوں کا کسی طور بھی ساتھ نہ دیتی ہوئی۔
"کیسے لیتی ہو؟"
"یہ میں بعد میں طے کرتی ہوں!"
"یعنی تم ہر کسی کو فری میں دیتی ہو!"
"ہاں! ایسا ہی سمجھو!" اس کی آنکھوں کی چمک بڑھی۔
"لیکن میں ایسے نہیں لیتی!" سنجیدگی سے کہہ کر پلٹ گئی۔بیرونی گیٹ عبور کرتے ہی وہ کچھ بےقراری سے لب کاٹتی اپنی جگہ رک گئی تھی۔
جو بات اس نے ڈائری میں پڑھی وہ حقیقت میں کیسے رونما ہو گئی؟کیا بیرینڈور میں بچیاں صبح سویرے پھول بیچا کرتی ہیں؟مگر وہ بیچ تو نہیں رہی تھی۔دے رہی تھی۔اس کے لیے قیمت کوئی اور شئے تھی جس کا تعین وہ بعد میں کرتی تھی۔۔۔
اگر یہ حقیقت ہے تو ڈائری کا دوسرا حصہ اور وہ بارش کی راتیں۔۔۔کیا وہ بھی؟؟؟ اس نے ایک دم سے نفی میں سر ہلایا۔ ایسا نہیں ہے۔یہ کوئی کہانی ہی ہو گی۔خود کو مطمئن کر کے وہ اندر چلی گئی۔
بیرونی دروازے کے اس پار وہ بچی پھولوں کی باسکٹ ہاتھ میں لیے دوسری منزل کی بند کھڑکیوں کو دیکھتی رہی تھی۔
★★★★★★★★
جاری ہے۔۔۔۔
Read Zanzaniya Episodes