*بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔۔۔*
*ناول زنزانیا۔۔۔۔۔۔ ZANZANIYA*
*باب اول : بیرینڈور Byrendor*
اطراف پر چھایا سکوت طلسم کی طرح ٹوٹا، اصوات کو زندگی مل گئی۔ مکھیوں کی بھنبھاہٹ ہر سمت پھیلی۔اس بھنبھناہٹ میں ایک آواز ازحد نمایاں ہوئی۔
"کیا یہ وہی ہے؟"
"ہاں وہی....بلکل وہی!" سرگوشی نما آواز اسکی گردن پر سرسرائی۔
"وہی چہرہ،وہی آنکھیں، وہی بال!!" سیاہ کپڑوں میں لپٹا ہوا ہیولا زمین پر آ ٹھہرا۔دردیوار پر ضخیم جثے کی پرچھائی نظر آئی۔
"یہ یہاں کیوں ہے؟!اب کیوں ہے؟" کئی سوال اٹھ گئے،کئی پردے سرک گئے۔ آہنی سلاسل میں جکڑا وجود فرش پر جھکا۔خون کی دھار منہ سے گری۔کئی چمکادڑ حرکت میں آئے۔کئی سانسوں پر وزن پڑا۔ کئی آہٹوں پر حرکت تھمی۔
اس کی آنکھیں دیکھنے سے عاری، دماغ سمجھنے سے قاصر ہوا۔بوکھلا کر وہ الٹے قدم پیچھے ہٹی۔
" کوئی ہے یہاں!!ہمارے علاؤہ بھی..... کوئی ہے یہاں!" سناٹے میں ایک شور اٹھا۔ ہر اک نگاہ اس پر اٹھی،ہر ایک سوال اس پر رکا۔
وہ کچھ گھبرا کر پیچھے کو بھاگی۔تاریکی میں بند دروازے کا منظر یکایک واضح ہوا تھا۔ دور کسی ویران راہداری میں قدموں کی چاپ ابھری تھی۔کسی گھنے درخت کی شاخیں آسمان کی طرف پھیلی تھیں۔ آگ کا ایک شعلہ زمینی گہرائیوں میں بھڑکا تھا۔انگاروں کی تپش نے کسی کے پیر جلائے تھے۔
وہ متوحش سی ایک مقام پر رک گئی تھی۔
"نہ یہ وقت اسکا ہے، نہ یہ جگہ اس کی ہے!!" سنسناتی ہوئی آواز پھر سے گونجی۔اس نے فرار کے لیے گھوم کر چاروں طرف دیکھا۔کوئی راہ اسے دکھائی نہ دی۔کوئی سبیل اسے نظر نہ آئی۔
"یہ دیکھ سکتی ہے! یہ تمہیں اور مجھے دیکھ سکتی ہے!" اس نے سرد ہاتھوں کی گرفت اپنے بازوؤں پر محسوس کی،منظر آنکھوں میں عیاں ہوا۔وہ جو زمین پر جھکا ہوا تھا شدت سے چیخ اٹھا۔اسکی درد بھری آواز نے اسے ہلا کر رکھ دیا۔
"تمہارا انتظار تھا مجھے!" نیم تاریکی میں آگ بھڑکائی گئی۔
وہ چہرہ بھیانک تھا جو آنکھوں میں سمایا تھا۔وہ آواز کرخت تھی جو سماعت سے ٹکرائی تھی۔وجود ہل گیا تھا،روح کانپ گئی تھی۔
"ایک قفل ہے تم پر،جسے توڑنا ضروری ہے!"
اور وہ آواز۔۔۔
ایک روتے گڑگڑاتے مرد کی آواز ایک بار پھر ابھری تھی۔ زنجیر کی جھنکار میں سسکیوں کا درد سنائی دیتا تھا۔پتھریلی دیواروں پر اذیت کے رنگ دکھائی دیتے تھے۔
"یہ سزاء نہیں, میرا انتقام ہے!"
اور پھر ایک چیخ گونجی تھی اور اگلے ہی پل اس کی آنکھ ایک جھٹکے سے کھل گئی تھی۔ بدحواسی کے عالم میں بیدار ہو کر وہ ایک دم سے اٹھ بیٹھی تھی۔ چہرہ پسینے سے تر اور دھڑکن شدید تر تھی۔
بوکھلا کر اس نے آس پاس دیکھا تھا۔
نہ تاریکی کے رنگ کہیں اب دکھائی دیئے،نہ رنج و الم کی صدا سنائی دیتی تھی۔ متحرک گاڑی میں موجودگی کا محض احساس تھا فقط جو دھڑکنوں کو ساکن کر رہا تھا۔ وہ مناظر اصیل نہ تھے جو اس نے دیکھے، نہ ان سرگوشیوں میں واقعیت تھی جو اس نے سنیں۔پھر وہ کیا تھا؟؟ اس کے لب ہلے، پلکیں لرز اٹھیں۔داہنا ہاتھ عرق آلود پیشانی پر ٹھہر گیا۔
" خواب۔۔۔" جواب اندر سے اٹھا۔ خیال سے تیقن میں ڈھلا۔ دہشت کا رنگ گہرا ہوا۔ خوف کی کیفیت سوا ہوئی۔
"تم جاگ گئیں!"برابر میں بیٹھی لیزا نے کسی احساس کے تحت گردن موڑ کر اسے دیکھا۔"اور ممی سے کون کہہ رہا تھا مجھے تو سفر میں بلکل نیند نہیں آتی!"
حیران تو وہ بھی تھی کہ کیسے سو گئی ؟
اپنی پیشانی مسلتے وہ شیشے کی طرف رخ پھیر گئی۔آنکھیں بند کیے کچھ دیر تک گہری سانسیں لیتی رہی۔ تھوڑا سا پانی پیا۔اور جب طبیعت کچھ بہتر محسوس ہوئی تو باہر دیکھنے لگی۔وسیع مرغزاروں اور کہساروں سے گھری ہوئی طویل سڑک اب گھنے جنگلات کے وسط سے گزر رہی تھی۔ سر اٹھائے اس نے ڈرائیونگ سیٹ پر براجمان انکل بیرک کو دیکھا۔پھر میشاء آنٹی کو جو فون پر بات کر رہی تھیں۔ایک خیال سا ذہن میں ابھرا جسے جھٹکتے ہوئے وہ لیزا کو دیکھنے لگی۔موبائل پر اپنی تصاویر بناتے ہوئے وہ طرح طرح کے پوز دے رہی تھی۔
ان سے اگلی نشست پر شاہانہ انداز میں نیم دراز لیزا کی دس سالہ بہن ایما ایک دم سے اٹھ کر بیٹھ گئی۔ فورا سے پچھلی نشست کی طرف جھکی۔
"گیس واٹ مجھے میری دوست نے ابھی کیا بتایا؟"آواز سرگوشی میں تھی اور تاثرات میں کئی اشتیاق،خوف اور جانے کیا کچھ ٹھہرا ہوا تھا۔
"کیا کہا ؟ " اس کی فضول گفتگو میں سب سے زیادہ دلچسپی لیزا کو ہی ہوتی تھی۔رینا تو رخ پھیر گئی۔
" اس نے کہا بیرونڈور Byrendor ہانٹڈ ہے!!"
لیزا کی آنکھیں اس انکشاف پر سکڑ گئیں۔ " کیا مطلب؟"
"وہ کہہ رہی ہے اس لیے وہاں سستے گھر، زمینیں ،پلاٹ بکتے ہیں!"
"تم اچھے سے جانتی ہو ہمارا نیا گھر ہمیں کس قیمت پر ملا ہے!" لیزا نے گھورا۔
"ہاں پر۔۔۔"
"ہاں!! پر یہ کہ تمہاری دوست کا ایک دعویٰ تو یہیں جھوٹا ثابت ہو گیا ۔ " لیزا نے فورا سے اسکی بات کاٹی۔
وہ بدمزہ ہو کر رینا کی طرف مڑی۔
"تمہارا کیا خیال ہے رینا!!وہاں بھوت ہوں گے؟" اپنی ہر بات کا رئیکشن وہ دونوں سے لیتی تھی۔
"اب رینا کیا وہاں کی میئر لگی ہوئی ہے جو اسکو پتا ہو گا؟" لیزا نے آنکھیں گھمائیں۔
"تم چپ رہو۔تم سے بات نہیں کر رہی میں !" بڑی بہن کو جھڑک کر وہ رینا کی طرف متوجہ ہوئی۔"پلیز بتاؤ نا! تمہیں بھی ایسا لگتا ہے ؟"
"نہیں مجھے ایسا بلکل بھی نہیں لگتا!"
"کیوں نہیں لگتا؟؟دیکھو ۔۔۔میری دوست کی خالہ وہاں رہ کر گئی ہیں۔انہوں نے کچھ تو دیکھا ہو گا نا۔۔۔تبھی وہ اپنی اتنی اچھی نوکری چھوڑ کر گئیں۔"
"اچھا تو تمہاری اس دوست کو پہلے کوئی مسئلہ نہیں تھا جب ہم وہاں شفٹ ہونے کا سوچ رہے تھے ، اب جب ہم وہاں جا رہے ہیں تو اسے یاد آیا یہ ٹھیک وقت ہے ،بتا دینا چاہیے خالہ کے پیچھے بھوت پڑ گئے تھے۔" لیزا نے مذاق اڑایا۔ ایما کو بہت برا لگا۔
"تم بات مت کرو !!!"ساتھ ہی رینا کی طرف متوجہ ہوئی"رینا پلیز!!!"
" تم جانتی ہو بیرینڈور پوری دنیا میں اپنی سیاحتی مقامات کی وجہ سے مشہور ہے۔"
اس نے اثبات میں سر ہلایا۔
"یہ بھی جانتی ہو کہ ہر سال جانے کتنے لوگ اس جگہ کو وزٹ کرتے ہیں!"
اس نے دوبارہ گردن ہلائی۔
"اگر وہ جگہ ہانٹڈ ہوتی تو کیا لوگ وہاں جاتے ؟"
"تو پھر میری دوست نے ایسا کیوں کہا؟"
"وہ مذاق کر رہی ہو گی تم سے !"
" مذاق نہیں کرتی وہ!"
رینا عاجز ہوئی۔
"رینا کیا بھوت سچ میں ہوتے ہیں ۔۔۔!"
"بھوت ووت کچھ نہیں ہوتے، سب کچھ یہاں ہوتا ہے! ہمارے دماغ میں !!" اس نے ایما کی کنپٹی کو چھو کر بات ختم کر دی۔
"تم تو کتابی کیڑا ہو۔تم تو ایسا ہی بولو گی!" تڑاخ سے بول کر وہ نشست پر چت لیٹ گئی ۔
"یہ ہے ہی ایسی۔۔۔پاگل!!" لیزا بڑبڑائی۔
"تم پاگل!رینا پاگل!"
"مما دیکھیں ایما بدتمیزی کر رہی ہے۔" ایما اب کے فرنٹ سیٹس کے درمیان گھس گئی۔
رینا نے سکھ بھری سانس لی اور کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی۔ جنگلات کا سلسلہ اب ختم ہو چکا تھا۔
بھاگتے دوڑتے مناظر میں اسے ایک حسن دکھائی دیا، آنکھوں کو مسحر کرتی ہریالی نظر آئی۔اس ہریالی نے خواب کا ہر اثر مٹا دیا۔ نیلی بلور آنکھوں میں ستائش کا رنگ ٹھہرا دیا۔ دور کہیں سرمئی بورڈ پر Byrendor لکھا دکھائی دیا۔
اس شہر کے متعلق جو اس نے سن رکھا تھا وہ آج دیکھ بھی لیا۔ ایسی خوبصورتی تو اسے کبھی ڈوسان Dusasn میں بھی نظر نہ آئی تھی۔ ایسی وادیاں ،پہاڑ، باغ اور نہریں تو سٹارویل میں بھی دکھائی نہ دیتے تھے۔اسے ویسے بھی قدرتی مناظر بھلے لگتے تھےاور رنگوں سے بہت محبت رہتی تھی۔اس نے کئی تصویریں موبائل پر لے ڈالیں۔
سورج غروب ہواتو آسمان کی نیلاہٹ پر سرمئی رنگ بکھرنے لگا۔ ساکت ہواؤں نے نئی زندگی پکڑ لی۔مٹی کا ایک طوفان اٹھا اور موسم کو گھمبیر کر گیا۔ اسکا ذہن ایک بار پھر ان مناظر کی لپیٹ میں آ گیا جو اس نے بیدار ہونے سے پہلے دیکھے تھے۔
ذہن بھٹکانے کو اس نے کتاب کھول لی۔ کہانی میں غرق ہو کر کافی دیر بعد سر اٹھایا تو دھرتی پر اندھیرے پھیلتے نظر آئے۔ سٹریٹ لائٹس کی روشنی میں سڑک دکھائی دی۔ طویل القامت درختوں میں ہیبت نظر آئی۔
"اور کتنا سفر باقی ہے؟ " لپ اسٹک کا شیڈ کوئی دسویں بار بدلتے لیزا نے پوچھا تھا۔
" ایک گھنٹہ !!" جواب انکل بیرک نے دیا تھا۔ان کے سنجیدہ تاثرات میں اب ایک پریشانی نظر آتی تھی۔اور اسٹیرنگ وہیل پر گرفت بڑھتی ہی جاتی تھی۔
رینا ابرہیم نے کھڑکی کے قریب ہو کر آسمان کو دیکھنا چاہا۔ کہ شاید تاریکی میں کہیں تارے دکھائی دے جائیں۔ مگر ہنوز بادل چھائے ہوئے تھے۔ کچھ بھی نظر نہ آتا تھا۔ کچھ ہی دیر بعد انکل بیرک نے گاڑی قریبی پیٹرول سٹیشن پر روک دی۔
پہلے ایک دروازہ کھلا،پھر دوسرا ،تیسرا ۔۔۔اور دیکھتے ہی دیکھتے سب کمر سیدھی کرتے گاڑی سے باہر تھے۔ اپنا بیگ کنگھالتی وہ بھی اتر گئی۔سامنے ہی ایک سٹور تھا۔ اسے کچھ خریداری کرنی تھی سو سیدھا وہیں چلی گئی۔
اس نے چپس کے کچھ پیکٹس اٹھائے، چاکلیٹس خریدیں۔کاؤنٹر کے پاس ہی کتابوں کا ریک تھا۔ رک کر دیکھنے لگی۔
کاؤنٹر پر بیٹھی ایک فربہی خاتون کی نگاہیں اس کے چہرے پر جمی رہ گئیں۔
اسکے بال سنہرے تھے، لیئرز میں کٹے ہوئے ، نیلی بلوریں آنکھوں میں نمی سی ٹھہری تھی۔ گال اور لب گلابی تھے ۔غالبا سردی کی شدت سے۔
وہ سیاہ اونی فراک میں ملبوس تھی جس کے تمام بٹن سرخ پھول جیسے تھے۔ سرخ مفلر اسکی گردن سے لپٹا تھا۔بیگ کندھے سے لٹکائے وہ مہویت سے کتابوں کو دیکھ رہی تھی۔
" لگتا ہے اس شہر میں نئی آئی ہو!"
اس نے چونک کر سر اٹھایا ۔وہ اپنے حلیے سے کسی طور بھی منفرد یا انوکھی نظر نہیں آ رہی تھی۔ مگر اس عورت کی جانچتی نگاہوں کا تاثر اسے کچھ کنفیوژ کر گیا۔جو کتاب ہاتھ میں پکڑی ہوئی تھی اسے کاؤنٹر پر رکھ دی۔
"آپ کو ایسا کیوں لگا؟" اپنے چھوٹے سے پرس سے پیسے نکال کر سامنے رکھے۔
"یہ جو موسم ہے۔۔ " خاتون کا لہجہ ایک دم سے پراسرار ہوا۔ " یہ بتا رہا ہے!"
بادلوں کی گھن گرج اب واضح سنائی دینے لگی تھی۔
اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتی، ایما نے گلاس ڈور پوری قوت سے دھکیل کر پکارا۔ " اور کتنی دیر ہے تمہیں؟"
خاتون کی نگاہیں ہنوز اس کے چہرے پر جمی رہیں۔ سر جھٹک کر اس نے شاپرز اٹھائے اور دروازہ کھول کر باہر آ گئی۔
فضاء میں اب طغیانی اتر چکی تھی،کئی پنفلٹ فضا میں اڑتے بکھرتے نظر آ رہے تھے، کئے پتے بھنور، کئی ذرے چکر بنا رہے تھے ۔
"بیٹھ بھی جاؤ اب۔۔۔" لیزا نے شیشہ چڑھا دیا تھا۔ عقبی نشست کا دروازہ کھول کر وہ گاڑی میں سوار ہو گئی۔
گاڑی مین روڈ پر رواں ہوئی تو اس نے گردن موڑ کر عقبی شیشے سے گیس اسٹیشن کو دیکھا۔۔۔
سٹور کی مالکن گلاس ڈورز کے اس پار متحرک نظر آئی۔ اس نے "closed" کا سائن لگا دیا، دروازے بند کر دیئے ، شیشوں پر بھی شیڈ ڈال دیا۔ یہ کام اس نے محض چند لمحوں میں کر لیا تھا۔ بہت عجلت میں، بہت سرعت سے۔۔ جیسے وقت بہت کم ہو۔۔رینا نے اس سٹور کو نظروں سے اوجھل ہو جانے تک دیکھا تھا ۔
اس وقت رات کے آٹھ بج رہے تھے۔ جو سٹور سفری راستوں پر اور مین روڈ پر ہوتے تھے وہ چوبیس گھنٹوں تک کھلے رہتے تھے۔مگر یہاں تو عجیب ہی دستور تھا۔
کندھے اچکا کر اس نے چپس کا پیکٹ کھول لیا ۔ رم جھم برستی بارش اب تیز ہو چکی تھی۔وائپرز متحرک تھے۔۔یکایک گاڑی کی رفتار ایک دم سے سست پڑی اور سڑک کنارے ایک جھٹکے سے رک گئی۔
ہیڈ فونز ہٹا کر اس نے سر اٹھایا۔ تیز بارش میں ویران سڑک تاریکی میں گم نظر آئی۔
"موسم طوفانی ہو رہا ہے۔بارش رک جائے تو پھر چلتے ہیں!" سٹیرنگ وہیل پر گرفت جمائے انکل بیرک نے سنجیدگی سے کہا۔میشاء آنٹی گھبرا گئیں۔۔ایسے ویران جنگل کے بیچ و بیچ گاڑی روک دینا عقل مندی نہیں تھی۔۔مگر انکل بیرک چونکہ ڈرائیونگ سیٹ پر تھے سو کچھ بھی سننے کو تیار نہ تھے۔ایمی بری طرح سے سہم گئی۔
" ممی مجھے ڈر لگ رہا ہے!"
" ارے ڈرنے کی تو کوئی بات نہیں۔۔۔صرف بارش ہو رہی ہے۔۔۔ ابھی موسم کچھ بہتر ہو جائے تو پھر چلتے ہیں!"میشاء آنٹی نے تسلی دی۔ایما اچک کر سامنے والی دو سیٹوں کے درمیان فٹ ہو گئی۔۔۔
رینا نے گہری سانس لے کر موبائل اور ہیڈ فونز رکھ دیئے۔۔کتاب بھی بند کر دی۔۔۔گردن موڑ کر دائیں طرف دیکھا۔اسے گھنے درخت اور جھاڑیاں نظر آئیں۔اسے لگا وہاں کوئی کھڑا ہے۔۔۔اندھیرے میں کوئی شئے چمکی۔بےاختیار آگے کو ہو کر اسی مقام پر دوبارہ دیکھا۔ ہوا کے زور سے جھاڑیاں متحرک تھیں۔ درختوں کی شاخیں جھکی چلی آ رہی تھیں۔ لمحے بھر کے لیے بجلی چمکی تھی۔ اور اسکا یقین وہم میں بدلا تھا۔۔۔ وہاں کچھ نہ تھا۔۔کوئی نہ تھا۔۔بیرک فیملی کی اپنی ایک بحث چھڑ چکی تھی۔ میشاء آنٹی کچھ کہہ رہی تھیں۔ لیزا نے ایمی کو ڈانٹ دیا تھا کہ وہ ٹک کر ایک جگہ پر بیٹھ نہیں رہی تھی۔۔
رینا کبھی دائیں، کبھی بائیں اور کبھی گردن موڑ کر پیچھے کی طرف دیکھنے لگتی۔ سڑک پر اور کسی بھی گاڑی کا گزر ابھی تک نہیں ہوا تھا۔روڈ ویسا ہی سنسان تھا۔
"ڈوسان کہاں سے کہاں پہنچ گیا اور یہاں خراب موسم میں آج بھی سگنل نہیں ملتے!" لیزا کا نٹ نہیں چل رہا تھا۔۔اور ایما اپنی کلاس فیلو سے بات نہیں کر پا رہی تھی۔۔ " ڈیڈ آپ کو بھی بس یہی شہر ملا تھا ہمارے لیے ؟!"
انکل بیرک نے اپنے کان بند کر لیے۔ان کے ہاتھ میں موبائل تھا،وہ اس پر ابھرتے ایک پیغام کو دیکھ رہے تھے۔
تقریباً بیس منٹ کے بعد بارش رک گئی۔۔ہوائیں تھم گئیں۔دھند کچھ کم ہوئی تو اسٹریٹ لائٹس کی روشنیوں کا گمان ہونے لگا۔انکل بیرک نے گاڑی اسٹارٹ کر دی۔ رینا نے موبائل اٹھا کر دیکھا۔سگنلز آ رہے تھے۔۔نٹ بھی چل رہا تھا۔سفر پھر سے شروع ہوا تو وہ باہر دیکھتی رہی۔کچھ ہی دیر بعد گاڑی آبادی میں داخل ہو چکی تھی۔۔کشادہ سڑکوں کے اطراف میں سرخ اینٹوں کے شاندار مکان نظر آتے تھے۔ بتیاں جل رہی تھیں۔۔۔دکانیں، مارکٹ، مال سنسان سے تھے۔ کہیں جگہوں پر گاڑیاں کھڑی تھیں مگر انہیں تاحال کوئی بھی انسان نظر نہیں آیا تھا۔
اس نے کچھ حیرت سے ہر طرف دیکھا۔۔۔ رات کے اس پہر روشنیوں میں نہائے ہوئے اس شہر کی سڑکوں پر کوئی بھی موجود نہیں تھا۔۔۔
" ابھی تک کوئی نظر ہی نہیں آیا ؟" لیزا حیران ہوئی تھی۔۔۔
"ممکن ہے بارش کی وجہ سے لوگ اپنے گھروں میں بند ہوں۔"مارلین نے جواب دیا۔"کتنا خطرناک طوفان آیا ہے!! "
"ظاہر ہے احتیاطی تدابیر تو ہر انسان کرتا ہے۔شکر ہے بارش جلدی تھم گئی۔" اب وہ دیکھ سکتے تھے۔وہ بادلوں کو آسمان سے ہٹتا اور تاروں کو چمکتا دیکھ سکتے تھے۔فضاء خوشگوار ہو چکی تھی۔
آبادی سے نکل کر یہ گاڑی پہاڑ کے ڈھلوان راستے سے گزرتی لمبی شاہراہ پر دوڑنے لگی۔سامنے زرکاڈ کی برف سے ڈھکی چوٹیاں رات کی تاریکی میں ہیبت ناک سا تاثر دیتی نظر آ رہی تھیں۔
انکل بیرک نے گاڑی SAROOK STREETپر ڈال دی تھی۔ یہ روڈ آبادی سے دور سرسبز باغات سے گزرتا ہوا دور تک جاتا تھا۔ دس پندرہ منٹ کی ڈرائیو کے بعد گاڑی ہاروی ( HARVI Park) پارک سے آگے شروع ہونے والی رہائشی کالونی میں داخل ہو چکی تھی۔
سڑک کنارے سرسبز درختوں سے گھرا ہوا منار(MANAR) ہاؤس اسے دور سے ہی دکھائی دے گیا تھا۔یہ گھر دوسرے گھروں سے کافی دور اور الگ تھلگ سا نظر آتا تھا۔ سبزہ ، درخت اور باغات سے گھرا ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔
ملازمہ بیرونی گیٹ پر انکی منتظر تھی۔ اشارہ ملتے ہی دروازے کھول دیئے گئے۔ گاڑی اندر پارک کر دی گئی۔
باقی سب پرجوش ہو کر اتر گئے تو وہ بھی اپنی چیزیں سمیٹ کر باہر نکل آئی۔ سر اٹھا کر اس نے نئے گھر کو دیکھا۔
ویکٹورین طرز کا مکان جدید و قدیم کا بہترین امتزاج تھا۔منفرد سا بیرونی ڈیزائن تھا، خمدار کھڑکیاں تھیں۔بیلوں سے لپٹی بالکنیاں تھیں۔ وسیع سا لان تھا۔شاہ بلوط کے درخت تھے۔لان چئیرز بھی تھیں۔ عقبی طرف ایک سوئمنگ پول بھی تھا۔منقش بیرونی دروازہ تو انتہائی شاندار لگ رہا تھا۔ یہ نظارہ اسکے اندر ستائش ٹھہرا گیا۔
دروازے کے برابر میں ایک نقرئی تختی لگی تھی جس پر منار ہاؤس لکھا ہوا تھا۔ اس تختی کا ایک حصہ ذرا سا کھڑا ہوا تھا جیسے کسی نے اتارنے کی کوشش کی ہو مگر اتار نہ سکے ہوں۔
دروازے کو دھکیلتی وہ اندر چلی گئی۔
گھر کا اندرونی منظر لمحے بھر کے لیے اسے مبہوت کر گیا۔
قدم آدم کھڑکیوں پر گہرے رنگ کے پردے لٹکے ہوئے تھے۔میرون تھیم میں لاونج سجا ہوا تھا۔ قیمتی نفیس قالین بچھے تھے۔دیواروں پر پینٹنگز آویزاں تھیں۔مضبوط لکڑیوں کا فرنیچر تھا۔ مہنگے ڈیکوریشن پیس تھے جو شوکیس میں سجے تھے۔ ونٹر اسٹڈی روم ، ایک لائبریری روم بھی تھا۔۔۔ڈائننگ ہال بھی اسے اچھا لگا تھا۔۔۔سیلنگ تو روشنی کا بقعہ بنی ہوئی تھی۔۔۔
"رینا ۔۔ہئے ۔۔۔" ایما نے اسے پھر سے گھیر لیا۔
" ذرا تم مجھے بتاو اب اپنے جادو سے کہ یہ گھر ہانٹڈ ہے یا نہیں؟؟"
اسکا طنز ٹھیک ٹھاک سمجھتے رینا لب بھینچ کر رہ گئی۔
"اوہ ایما ڈیئر! تم بھول رہی ہو ہماری رینا کا جادو تو بس یہاں ہے۔۔ " برابر میں کھڑی لیزا نے مسکراتے ہوئے اس کے بالوں کو چھونا چاہا مگر رینا نے اسکا ہاتھ جھٹک دیا۔
" کیسا فضول سا جادو ہے۔۔ جس کا کوئی فائدہ ہی نہیں!!" ایما منہ پھاڑ کر ہنسی۔ رینا نے ایک سرد نگاہ اس کے چہرے پر ڈالی پھر بیگ اسٹیڈ پر رکھ کر سیڑھیوں کی طرف بڑھ گئی۔اوپری منزل اسکی توقع سے بڑھ کر شاندار تھی۔ ہر کمرہ وسیع اور پرارائش تھا۔۔۔فرنیچر سے آراستہ کیا گیا....پرسکون لگتا ہوا....
ماسٹر بیڈ روم کے علاؤہ تین کمرے تھے اور تینوں کو ان کے مزاج کے مطابق بہت ہی نفاست سے سیٹ کیا گیا تھا۔اسکا کمرہ عقبی طرف تھا ۔اور کھڑکیاں پیچھے باغ کی طرف کھلتی تھیں۔ کھڑکیاں ہمیشہ سے اس کے لیے اہم رہی تھیں۔کسی بھی کمرے میں خواہ وہ ہوٹل کا ہو یا کسی گھر کا۔ اسکا فوکس کھڑکیوں سے باہر نظر آتے منظر پر زیادہ ہوتا تھا۔ باغ گھنا تھا ۔اور کچھ نظر نہ آتا تھا۔ کچھ بےدلی سے باہر دیکھتے اس نے سلائڈ بند کر دی۔
لیزا اور ایما کی بحث، شور اور باتوں سے قطعی بےنیاز وہ ٹہلتی ہوئی بقیہ کمروں کا، راہداریوں کا، اور پینٹنگز کا جائزہ لیتی رہی۔دروازہ کھولتی، بند کرتی،کسی چیز کو اٹھا کر دیکھتی، کھڑکیوں سے باہر کا نظارہ کرتی اور باہر آ جاتی۔
سامنے کونے میں ٹیرس کے برابر میں ایک دروازہ تھا۔ جس کا رنگ بھی مختلف،ڈیزائن بھی منفرد تھا۔ اس نے بس یونہی جائزے کی غرض سے دروازے کے سامنے رک کر سنہری ناب پر ہاتھ رکھا۔
دفعتا کمرے کے اندر کانچ کی کوئی شئے گر کر ٹوٹی۔ عجلت میں قدم اٹھاتے کوئی سر پٹ بھاگا تھا۔ دھپ دھپ واضح سنائی دی۔
اس نے ناب کو گھماتے ہوئے اندر کی جانب دھکیلنا چاہا مگر دروازہ ٹس سے مس نہ ہوا۔مزید جھٹکا دیا۔ زور بھی لگایا مگر کچھ نہ ہوا۔دروازہ لاکڈ تھا۔۔۔
" یہ کمرہ بند ہے!"
ملازمہ کی آواز پر وہ چونک کر مڑی۔
"کیوں بند ہے؟؟"
" اسکی چابی نہیں ملی اس لیے کھولا نہیں گیا۔۔۔"
" مگر ابھی تو میں نے آواز۔۔۔۔ " اس نے کہتے ہوئے رخ موڑا مگر ملازمہ سیڑھیاں اتر کر جا چکی تھی۔ اس نے دروازے کے ساتھ کان لگا کر کچھ سننے کی کوشش کی مگر دوسری طرف ایک مکمل خاموشی کے سوا کچھ نہ تھا۔
کیا میرے کان بج رہے تھے؟؟ اس نے کچھ حیران ہو کر سوچا تھا۔ پھر کندھے اچکاتی سیڑھیوں کی طرف بڑھ گئی تھی۔
★★★★★★★جاری ہے۔۔۔۔
Read Zanzaniya Episodes