Chapter:4 بارش کی پہلی رات!
شام کے آٹھ بج رہے تھے ۔ کتاب ہاتھ میں لیے وہ سیٹنگ ایریا میں بیٹھی تھی۔یکایک بادلوں کی گھن گرج سنائی دینے لگی۔گردن موڑ کر اس نے بےاختیار کھڑکیوں کی جانب دیکھا۔پردے سمٹے ہوئے تھے ۔لان کے درخت اور پودے متحرک نظر آ رہے تھے۔باہر تیز ہوا چل رہی تھی۔
بیرینڈور کی بارش۔۔۔۔ڈائری کی عبارتیں ایک دم سے ذہن میں ابھر آئیں۔
"بات سنو ۔۔رینا!!" لاؤنج کے صوفے پر نیم دراز لیزا فورا سے سیدھی ہوئی۔ "تمہارے پاس سگنلز آ رہے ہیں؟"
"میں کتاب پڑھ رہی ہوں!" اس نے گھورا۔
"افوہ۔۔۔۔اتنا ضروری مسج تھا۔۔سینڈ نہیں ہو رہا۔"وہ جھنجھلائے ہوئے اٹھی ۔موبائل اوپر کیے سگنلز پکڑنے کی کوشش کی۔یہاں وہاں جگہ بدلی کہ کسی طور سینڈ ہو جائے مگر ناکامی ہوئی۔۔
"تم لوگ سوئے نہیں ابھی تک؟؟" میشاء آنٹی سیڑھیاں اتر کر نیچے آ گئیں۔
"بس ماما جانے ہی والے تھے!" لیزا نے سیڑھیوں کا رخ کیا تو وہ بھی کتاب اٹھائے اوپر آ گئی۔۔۔ لیزا راہداری میں ٹہلتے ہوئے ابھی بھی بڑبڑا رہی تھی۔ "اف۔۔۔۔۔ یہ بھی اب ہی ہونا تھا۔۔۔کال بھی نہیں کر پا رہی میں !!!"
رینا گہری سانس لیتی اپنے کمرے میں آ گئی۔کپڑے بدل کر بیڈ پر بیٹھی تو ہواؤں کا شور سنائی دیا۔گھن گرج کی آواز بھی مسلسل آ رہی تھی۔ اس نے کھڑکی سے پردہ سرکا کر باہر جھانکا تو شیشے پر قطرہ قطرہ بارش چمکتی ہوئی نظر آئی۔
ایک ایک کر کے تمام اسٹریٹ لائٹس تاریک ہونے لگیں۔ہوا کے زور سے درختوں کی شاخیں سڑک پر جھکی چلی آ رہی تھی۔
چند ہی لمحوں میں بارش طوفانی ہو گئی۔نچلا لب کاٹتے ہوئے اس کھڑکی کے ہینڈل پر ہاتھ رکھا۔
اسکے برابر میں شیشے پر سانس کی ایک دھند نمودار ہوئی۔کچھ دیر بعد اس نے کھڑکی کے سامنے پردے پھیلا دیئے۔ لائٹس آف کیں اور سونے کے لئے لیٹ گئی۔
اور بیڈ کے نیچے۔۔۔
اندھیرے میں کہیں۔۔
آج پھر سرخ آنکھیں چمک رہی تھیں۔
★★★★★★★★
★★★★★★★★
وہ جنگل کے وسط میں کہیں تھی۔ اس کے اطراف میں دبیز دھند کا ایک ہالہ تھا۔اس ہالے میں درختوں کی بے ہنگم شاخیں اس پر جھکی ہوئی تھیں۔
وہ کہاں ہے اس وقت؟ اس نے خوف کے عالم میں گھوم کر چاروں طرف دیکھا تھا۔
لمحوں میں کالی گھٹا آسمان پر چھا گئی۔ اس کے کان کے بے حد قریب آ کر کسی نے متعفن سانسوں کی بیچ سرگوشی کی۔
"واپس چلی جاؤ!"
اس نے ایک جھٹکے سے پلٹ کر پیچھے دیکھا۔ دھند کا ہالہ ختم ہو گیا۔ درخت زمین سے اکھڑ کر فضاء میں ٹھہر گئے،نہر کا پانی سیاہ ہونے لگا ۔
"تم یہاں خود نہیں آئیں،تمہیں یہاں لایا گیا ہے!"
دفعتاً بجلی کی کڑک کے ساتھ کمرے کی کھڑکیاں ایک جھٹکے سے کھل گئیں اور وہ دہشت کے عالم میں نیند سے بیدار ہو کر فوراً اٹھ بیٹھی۔
کمرے میں شور سا تھا۔ ہوا کے زور سے پردے پھڑپھڑا رہے تھے۔ بارش کا پانی اندر آ رہا تھا۔ اس نے تیزی سے اٹھ کر کمرے کی کھڑکیاں پوری قوت سے بند کر دیں۔ کمرے کا فرش گیلا ہو چکا تھا۔پردوں سے پانی ٹپک رہا تھا۔ نیم تاریکی میں اسے اپنے کمرے کا دروازہ کھلا نظر آیا۔ کچھ چونک کر اس نے بلب روشن کر دیا اور اگلے ہی پل اسکا وجود پتھر ہو گیا۔
فرش پر کیچڑ زدہ پیروں کے نشان تھے جو کھڑکی سے رائٹنگ
ٹیبل اور رائٹنگ ٹیبل سے دروازے کی طرف جاتے نظر آ رہے تھے۔ شاک کے عالم میں اس کی نگاہیں رائٹنگ ٹیبل پر ٹھہر گئیں جہاں ڈائری کھلی پڑی تھی۔
اسے اچھی طرح سے یاد تھا کہ سونے سے قبل اس نے باکس کے ساتھ ڈائری دراز کے اندر رکھی تھی۔مگر اب۔۔۔۔۔۔
بادل گرجے۔بجلی چمکی۔پل بھر کی روشنی میں دماغ سنسنا اٹھا۔
دوسری منزل کی کھڑکی سے کوئی کیسے اندر آ سکتا ہے؟ پاؤں میں سلیپرز اڑستے ہوئے وہ تیزی سے باہر نکلی تھی۔۔ گیلی مٹی کے نشان راہداری میں بھی تھے۔سیڑھیوں پر بھی۔۔آہنی ریلنگ پر جھک کر اس نے نیچے دیکھا تھا۔
صدر دروازہ کھلا ہوا تھا۔ کوئی سرعت سے باہر نکل گیا تھا۔
کون ہو سکتا ہے!؟
ذہن کے پردوں پر ایک منظر لہرایا۔پھر عبارت نظر آئی۔ ہمت مجتمع کرتی وہ نیچے آ گئی۔پھر قدرے فاصلے سے اس نے باہر دیکھا۔
لان کی لائٹس عموماً رات کے وقت جل رہی ہوتی تھیں مگر آج نہ جانے کیوں بند تھیں۔باہر گھپ اندھیرا تھا۔
اس کے ذہن کے پردوں پرخواب کا خوفناک منظر لہرایا۔ایک جھرجھری سی لے کر وہ پوری قوت سے دروازے کو باہر کی جانب دھکیلتی آگے ہوتی گئی اور تب اچانک اسے ابتدائی سیڑھیوں پر کسی کی موجودگی کا احساس ہوا۔
پل بھر کے لیے بجلی چمکی،منظر صبح کے اجالے کی طرح روشن ہوا۔ اسے سنہری بھیگے بالوں کی جھلک نظر آئی ۔
’’کون ہے؟‘‘ اس نے چلا کر پوچھا۔بارش کے شور میں اس کی آواز دب گئی تھی مگر اسے یقین تھا کہ سامنے کچھ ہی فاصلے پر کھڑے وجود نے اس کی آواز سن لی ہے۔
’’کون ہے وہاں؟‘‘وہ دروازہ چھوڑ کر باہر آ گئی۔سیاہ وجود سیڑھیاں اترتا بیرونی گیٹ کی جانب بھاگا۔
تیز ہواوں کے ساتھ بارش کے تھپیڑے رینا کے وجود پر پڑے اور وہ بھیگ گئی۔اس نے سردی کی شدت سے ٹھٹھرتے ہوئے سر اٹھایا۔
خالی ویران آنکھوں سے کسی غیر مروئی نقطے کو تکتے وہ بارش میں چند لمحوں تک بھیگتی رہی پھر بیرونی گیٹ کھول کر باہر نکل گئی۔اب وہ بھاگ رہی تھی۔۔۔۔اندھا دھند۔۔بلا اختیار!
کئی مرتبہ وہ جھاڑیوں سے الجھی،درختوں سے ٹکرائی،ٹھوکریں کھا کر نیچے بھی گری۔اس کے باوجود اسکا ارتکاز نہ ٹوٹا، خمار
نہ ٹوٹا، حصار نہ ٹوٹا۔
یوں لگتا تھا جیسے وہ لاشعوریا کسی تعاقب میں ہو۔ یا جیسے کسی انہونی طاقت کے حصار میں بھاگتی جا رہی ہو۔
دفعتا بیرینڈور کا جنگل وحشت ناک چیخوں سے گونج اٹھا۔زمین لرزنے لگی۔
’’ریناااا!!‘‘ اسے پوری قوت سے پکارا گیا۔
اس نے درختوں کو جڑوں سے اکھڑتے اور سرخ روشنی کو چمکتے دیکھا۔۔
"رینا!!!!!!"دور سے آتی ہوئی آواز اب بہت قرب سے گونجی تھی۔
"رک جاو۔۔۔۔۔رینااااااا!!!!"
یکایک کسی نے اسے بازو سے پکڑ کر اپنی جانب کھینچا۔اسکا توازن برقرار نہ رہا ،وہ لہرا کر زمین پر آ گری۔
کوئی جاندار شئے جھاڑیوں کو پھلانگتی ہوئی بجلی کی سی تیزی سے اس کے اوپر سے گزر گئی تھی۔
تاریکی میں کوئی اس کے سر پر کھڑا تھا۔
اس نے بھیڑیئے کی غراہٹ نما آواز سنی۔اس کے بعد اسے کوئی ہوش نہیں رہا تھا۔
★★★★★★★★
خار جھاڑیوں سے گھرا سنسان راستہ تھا،ویران راہداریاں تھیں۔کہیں بارش کا شور تھا۔کہیں آب شار کی آواز تھی۔ دبیز تاریکی میں اسکا وجود فضاء میں کہیں معلق کھڑا تھا ۔
"یہ تو وہی ہے۔۔۔۔ "
"بلکل وہی۔۔۔۔"
سرگوشیوں کا ایک شور اٹھا۔اسے بازوؤں سے پکڑ کر زمین پر پٹخا گیا،درد کی شدت سے چیختے ہوئے اس نے اٹھنا چاہا،دور کہیں بجلی چمکی، تاریکی میں ایک ہیولا سا نمودار ہوا، "سب مر گئے،تم زندہ رہ گئیں۔ کیسے رہ گئیں؟"
رسی گردن کے گرد لپٹ گئی ، بیڑیاں پیروں میں ڈل اسکا چہرہ سرخ ہوا، سانس بند ہوا، اور اگلے ہی پل اس کی آنکھ کھل گئی تھی۔وہ چیختے ہوئے ایک جھٹکے سے اٹھ کر بیٹھ گئی تھی۔ دونوں ہاتھ گردن پر آ گئے تھے۔آہنی گرفت کہیں نہ تھی۔ تیز تیز سانس لیتے اس نے سر اٹھایا تھا۔ایک چھوٹے سے مکان کا اندرونی منظر دھندلاہٹ میں عیاں ہوا، وہ اپنے گھر میں نہیں تھی،یہ کمرہ اسکا نہیں تھا۔
منار ہاوس کے دروازے پر، سنہرے بالوں کی ایک جھلک اور بارش میں بھیگتا اس کا وجود۔۔۔دماغ پر چھائی ہوئی دھند ایک پل میں فنا ہوئی۔بستر سے اٹھ کر وہ دیوار کے ساتھ جا لگی۔ نگاہیں آتش دان میں لکڑیاں ڈالتے ادھیڑ عمر شخص پر جم گئیں جو گردن موڑے اب اسے دیکھ رہا تھا۔
اس کا جھریوں زدہ چہرہ سپاٹ تھا۔بھوری آنکھوں میں ویرانی تھی۔عمر یہی ساٹھ ستر کے لگ بھگ ہو گی۔وہ سیاہ جرسی اور پتلون پر بھورے رنگ کے کوٹ میں ملبوس اسے بے تأثر نگاہوں سے دیکھتا اٹھ کھڑ ا ہوا۔
کسی ہتھیار کی تلاش میں رینا ابرہیم نے آس پاس نگاہ دوڑائی۔خوف اور دہشت کے عالم میں کچھ سمجھ نہ آیا تو سائڈ ٹیبل سے لکڑی کا گملہ اٹھا لیا۔ "ک۔۔۔کون ہو تم؟" اسکے وجود پر لرزہ طاری تھا۔
"مجھ سے ڈر رہی ہو؟" وہ شخص بولا تو لہجہ سرد اور آواز بےحد بھاری تھی ۔رینا کا دل شدت سے دھڑکا۔
"جو لوگ انسانوں سے ڈرتے ہوں،وہ آدھی رات کو باہر نہیں نکلتے!"اس نے اوزار میز پر رکھ دیا۔ وہ دم سادھے کھڑی رہی۔ بوڑھے نے پانی کی بوتل سے چند گھونٹ لیے۔گہری پرسوچ نگاہوں سے جلتی بھڑکتی ہوئی آگ کو دیکھا۔
"تم مجھے جنگل میں ملیں،میں تمہیں گھر لے آیا!"آتشدان میں لکڑیوں کا اضافہ کرتے وہ کرسی پر براجمان ہوا۔اس کی بائیں طرف دروازہ تھا جس پر تالہ لگا تھا۔کھڑکیوں پر بھی لکڑیاں ٹھونکی گئی تھیں۔وہ کمرہ نما جگہ ہر طرح سے بند ،ہر جانب سے مقفل تھی۔ رینا کو اپنا دم گھٹتا محسوس ہوا۔قید کا احساس وجود پر حاوی ہوا۔وہ عجلت میں دروازے کی طرف بھاگی۔ہینڈل گھماتے کونڈی کھولنے کی کوشش کی۔پھر کوئی اور راہ فرار دیکھنا چاہی۔
"بارش رکنے تک تمہیں یہیں رکنا ہو گا!"
"مجھے آپ پر بھروسہ نہیں!"اس کے لب ہلے۔گلدان پر گرفت مضبوط رہی۔بوڑھے نے گردن موڑ کر اسے دیکھا۔ بادل زور سے گرجے تھے، آسمان کی بلندیوں میں کہیں بجلی چمکی تھی۔
"گھر جانا چاہتی ہو تو رک جاؤ، گم ہونا چاہتی ہو تو چلی جاؤ!" اس نے جیب سے تالے کی چابی نکال کر میز پر اچھال دی۔ رینا دم سادھے کھڑی رہ گئی۔
وہ اپنی جگہ سے اٹھ گیا۔ سامنے کیبنٹ سے اس نے پتی کا جار نکالا۔پھر کتیلی میں پانی ڈالتا آتشدان کے سامنے جا بیٹھا۔
رینا نے گلدان نیچے کر لیا۔وہ تذبذب کا شکار ہوئی۔سمجھ میں نہ آتا تھا اب وہ کیا کرے؟ بارش میں گھر جائے بھی تو کیسے؟ اسے تو راستے کا بھی علم نہ تھا۔ خدا جانے وہ کہاں آ گئی تھی۔کچھ سوچ کر اس نے کھڑکی پر لگے تختوں کی درز سے باہر دیکھنے کی کوشش کی۔ پل بھر کے لیے بجلی چمکی تو اسے جنگل کا گمان ہوا۔نچلا لب کاٹتے ہوئے وہ بستر پر جا بیٹھی۔
کیا ہوا تھا؟پیشانی پر ہاتھ رکھ کر اس نے سوچا۔ آخر وہ جنگل میں کیسے آ گئی تھی؟!منار ہاوس کے دروازے تک اسے سب یاد تھا، اس کے بعد کیا ہوا اسے کیوں یاد نہیں آ رہا تھا؟
یکایک اسے اپنی داہنی کلائی سے درد اٹھتا ہوا محسوس ہوا، بےاختیاری کے عالم میں اس نے کلائی پکڑ لی ،پھر آستین ہٹا کر دیکھا تو گنگ رہ گئی۔ کلائی پر نیل پڑے ہوئے تھے۔کہنی سی نیچے تک کا حصہ سرخ ہو رہا تھا۔
"کب....کیسے.." وہ شل ہوتے دماغ کے ساتھ اپنی جگہ بیٹھی رہ گئی تھی۔
بوڑھے نے رخ پھیر کر اسکی طرف دیکھا۔ تکلیف کی شدت سے وہ کراہ اٹھی۔ وہ اٹھ کر اس کے پاس آ گیا۔اگلے ہی پل اس کی کلائی پر نظر پڑی تو اپنی جگہ سن ہوا۔
"یہ چوٹ کیسے لگی؟؟" سنبھل کر پوچھا۔
"مجھے علم نہیں!"
کمرے میں ایک دم سے موت بھرا سناٹا چھا گیا۔ بوڑھا دبے قدم پیچھے ہٹ گیا۔ اس نے دو مگ نکالے، چائے انڈیلی پھر سیاہ رنگ کے زنگ آلودہ ٹرے میں رکھ کر آتش دان کے پاس بیٹھ گیا۔
"چائے پیو گی؟ "
وہ چند لمحوں تک اسے دیکھتی رہی پھر اٹھ کر پاس آ بیٹھی۔شکریہ کہہ کر چائے کا مگ لیا اور سپ لیتے ہوئے وہ اطراف کا جائزہ لینے لگی۔
یہ ایک کمرے پر مشتمل چھوٹا سا مکان تھا جس کی کھڑکیوں پر آہنی سلاخیں اور لکڑی کی تختیاں لگی ہوئی تھیں۔کمرے میں ایک ہی بستر تھا جس پر ابھی کچھ دیر پہلے تک وہ بیٹھی رہی تھی۔ ایک چھوٹی میز جو کھانے پینے کا سامان رکھنے کے کام آتی تھی۔ آتش دان کے سامنے دو کرسیاں رکھی تھیں۔مغربی دیوار میں ایک دروازہ تھا جو شاید واش روم یا اسٹور روم کا تھا۔
اس کے علاوہ بستر کے پاس لکڑی کے فرش پر لوہے کے زنگ آلود پرانے ہتھیار پڑے تھے جنہیں وہ شخص نیچے بیٹھ کر قدرے بوسیدہ رومال سے صاف کرتا رہا تھا۔
چائے کا آخری گھونٹ بھرنے کے بعد اس نے خالی مگ تپائی پر رکھ دیا۔ اپنے گرد شال اچھی طرح سے اوڑھے اب وہ کھڑکیوں کی طرف دیکھنے لگی تھی۔بارش ہنوز جاری تھی۔ہوا کے زور سے دروازے اور کھڑکیوں کے پٹ یوں ہل رہے تھے جیسے کوئی باہر سے انہیں کھولنے کی کوشش کر رہا ہو۔
آدھے گھنٹے بعد بارش رکی تو فضاء میں ہولناک سناٹا چھا گیا۔
"میرے خیال سے بارش رک چکی ہے!" بوڑھا اپنا کام چھوڑ کر اٹھ گیا۔ رینا نے اسے دروازے کی طرف جاتے ہوئے دیکھا۔
لکڑی کے مضبوط دروازے پر طرح طرح کی کنڈیاں لگی ہوئی تھیں۔ بوڑھے کے دونوں ہاتھ تیزی سے حرکت کرتے لاک کھول رہے تھے۔کھٹاک کی آواز کے ساتھ دروازہ اندر کی جانب کھینچتے ہوئے اس نے میز پر رکھی فلیش لائٹ اٹھائی اور باہر نکل گیا۔
اپنے اعصاب پر قابو پاتے ہوئے رینا ابرہیم نے دروازے میں رک کر باہر دیکھا۔
وسیع آسمان پر بادل سمٹ رہے تھے۔پورے چاند کی روشنی چہار سو بکھری ہوئی تھی۔جنگل کے لمبے گھنے درخت نمایاں ہو رہے تھے،ہر شئے پر موت بھرا جمود طاری تھا۔
لمحے بھر کے لیے اسے گمان ہوا وہ بیرینڈور میں نہیں ہے۔بیرینڈور ایسا نہیں ہو سکتا تھا۔اسکے جنگل ایسے بھیانک نہیں ہو سکتے تھے، اس کی وادیاں موت کا گیت نہیں سنا سکتی تھیں۔اسکی گھاٹیاں وحشت کا رقص نہیں دکھا سکتی تھیں۔ دبیز سناٹے میں کچھ تو تھا۔کچھ ایسا جسے آنکھیں دیکھنے کو مانع اور کان سننے کو قاصر تھے۔
بوڑھا اسکے سامنے کھڑا تھا۔اس نے فلیش لائٹ کی تیز روشنی اطراف میں ڈالتے ہوئے تسلی کی پھر اسے اشارہ کیا۔
اپنے خوف پر قابو پائے وہ اس کے ہمراہ خاموشی سے قدم اٹھانے لگی تھی۔ جیسے جیسے وقت گزرتا جا رہا تھا،اسکی وحشتوں میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔
کئی بار جھاڑیوں میں اسے ہلچل کا گماں ہوا۔ کئی بار درخت کی شاخوں میں حرکت کے آثار نظر آئے ۔ کئی بار زمین کی گیلی مٹی پر قدموں کی چاپ سنائی دی۔اس نے آہٹ پر کئی بار مڑ کر پیچھے دیکھا تھا۔ یوں لگتا تھا کوئی ہے جو اس کے تعاقب میں ہے ۔
جنگل کے راستے سارووک اسٹریٹ تک پہنچنے میں انہیں آدھا گھنٹہ لگا۔وہ متحیر تھی اتنا دور وہ کیسے چلی گئی تھی۔
"تمہارا گھر کس طرف ہے؟"
رینا نے خشک لبوں کو تر کرتے ہوئے دور تک نگاہ دوڑائی۔ رات کے اس پہر منار ہاؤس کی لان لائٹس روشن نظر آ رہی تھیں۔
"وہ والا گھر ہے!" اس نے اشارہ کیا۔بوڑھے کے قدم لمحے بھر کے لیے تھمے۔آنکھوں میں بےیقینی سی آ ٹھہری۔
رینا نے عجلت میں قدم اٹھائے اور پھر رک کر پیچھے دیکھا۔ بوڑھا اپنی جگہ پر کھڑا تھا۔ اس کی آنکھوں کا تاثر اسکی سمجھ سے باہر ہوا۔ شاید خوف کی جھلک تھی۔۔یا پھر کسی گہرے صدمے کی۔ وہ سمجھ نہ پائی۔
"آپ کا شکریہ!آپ مجھے یہاں تک لائے!"
"نہیں لانا چاہیے تھا!" بوڑھے کے لبوں میں جنبش ہوئی۔آواز پست تھی سو رینا سننے سے قاصر ۔ ادب سے سر خم کرتی وہ جانے کو مڑی ہی تھی کہ بوڑھے نے سر اٹھایا۔
" بارش کی راتوں میں باہر مت نکلا کرو،"
رینا کے قدم ساکت اور وجود پتھر ہوا،ایک جھٹکے سے پلٹ اس نے بوڑھے کو دیکھا۔
"اور سایوں کے پیچھے مت بھاگا کرو۔سائے سراب ہوتے ہیں." اپنی بات مکمل کر کے وہ مزید ایک لمحے کے لیے بھی نہیں رکا تھا۔
بارش کی راتیں.....
سائے۔۔!!
سراب!! بوڑھا کیسے جانتا ہے وہ کسی سائے کے تعاقب میں باہر آئی تھی؟ایک سرد لہر رینا ابراہیم کی رگ و پے میں سرایت کر گئی تھی۔
★★★★★★★★
جاری ہے۔۔۔۔
Read Zanzaniya Episodes