Zanzaniya novel by Husna Hussain - Episode 02

 

Novel cover of Zanzaniya novel by Husna Hussain - Episode 02

Zanzaniya by Husna Hussain
باب : 2 بند دروازہ
اگلی صبح بیدار ہوتے ہی اس نے عادتا کھڑکیاں کھول کر باہر دیکھا۔ آسمان کی وسعتیں طویل القامت درختوں میں چھپی نظر آئیں۔کھلی فضاء کا وہ منظر اس کے دل پر بھاری پڑا۔اسے گھٹن سی محسوس ہونے لگی۔
"کیا مجھے لیزا سے بات کر کے اپنا کمرہ بدلوا لینا چاہیے؟" اس نے سوچا۔ لیزا ہٹ دھرم تھی ، جلد بات نہیں مانتی تھی۔نہ اپنی کوئی شئے استعمال کے لیے دیتی تھی ،نہ ہی کسی ردوبدل کے لیے تیار ہوتی تھی۔ جو چیز اس کی تھی تو بس پھر اس کی ہی تھی۔
گہری سانس بھر کر اس نے کھڑکیاں بند کر دیں۔ شاور لے کر کپڑے بدلے اور نیچے آ گئی۔ ڈائننگ ٹیبل پر اس کا ہی انتظار ہو رہا تھا۔ ناشتے کے دوران ہلکی پھلکی گفتگو کے دوران کالج کا ذکر ہوا۔ ان کا ایڈمیشن ہو چکا تھا۔ کلاسز ایک ماہ بعد شروع ہونا تھیں۔انکل بیرک کی کچھ نصیحتوں کو بغور سنتے وہ سر ہلاتی رہی۔
ناشتے کے بعد وہ سیڑھیوں پر بیٹھ گئی۔کچھ دیر تک موبائل استعمال کرنے کے بعد سر اٹھایا تو  انکل بیرک  ملازم سے لاونج کی بتیاں ٹھیک کرواتے نظر آئے۔میشاء آنٹی اب گروسری  کی لسٹ بنا رہی تھیں۔ ملازم صفائی میں لگے ہوئے تھے۔ جو ادھورا کام تھا وہ مکمل ہو رہا تھا۔
ایک ہی طرح کی کاروائی کو بار بار دیکھتے وہ کچھ بور ہو کر   بیسمنٹ میں  آ گئی۔ ملازمہ  کچھ قیمتی چیزیں الگ کرنے اور کچھ زیر استعمال چیزیں چیریٹی کے لیے باکس میں نکال رہی تھی۔دھند اور دھول سے اٹی ہوئی فضاء میں اسے عجیب  پراسراریت نظر آئی۔
وہ سویٹر کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے  ٹہلنے لگی۔ چیزیں اٹھا اٹھا کر دیکھنے لگی۔لکڑی کا ایک چھوٹا سا باکس کھولنے کی کوشش میں اٹھایا تو ہاتھ سے چھوٹ کر نیچے جا گرا۔۔ اسکے اندر رکھی تمام اشیاء بکھر گئیں۔
ملازمہ نے  مڑ کر اسے دیکھا۔
اس نے گہری سانس لی پھر پنجوں کے بل بیٹھ کر چیزیں اکھٹی کرنے لگی۔۔چھوٹی بڑی کئی کلاک نیڈلز تھیں،استعمال شدہ قلم،گھڑیاں،نیلز اور  مختلف چابیاں تھیں۔۔۔ وہ تمام اشیاء کو سمیٹتی باکس میں ڈالتی گئی۔۔پھر اپنی تسلی کو اس نے الماری کے نیچے دیکھا کہ کہیں کوئی چیز نیچے تو نہیں چلی گئی۔ نیم تاریکی میں اسے کسی شئے  کا گمان ہوا۔ہاتھ بڑھایا تو اس کے ہاتھ میں ایک سنہری  چابی آ گئی جس کے ایک سرے پر  سنہری پھول منقش تھا جس کی  چمک مدھم مگر خوبصورتی ابھی بھی قائم تھی۔ ساخت بھی انتہائی منفرد سی....
کہیں یہ اس بند دروازے کی چابی تو نہیں؟ ایک خیال بجلی کے کوندے کی طرح ذہن میں لپکا اور وہ اسی پل عجلت میں  سیڑھیاں چڑھتی اوپر بھاگ گئی۔ راہداری سے گزر کر  بند دروازے کے سامنے رک کر اس نے پھولی سانسوں کے ساتھ چابی  کی ہول میں ڈال کر دائیں طرف گھمائی ۔ایک ساتھ تین لاک لگے ہوئے تھے،کھٹاک کی آواز کے ساتھ کھلتے چلے گئے۔
اسکی آنکھوں میں مسرت بھری حیرت کے ساتھ اشتیاق سا اترا۔ہینڈل گھما کر اس نے  دروازہ اندر کو دھکیل  دیا۔اندھیر کمرے میں چرچراہٹ کی آواز پھیلتی چلی گئی۔کئی برسوں کی خاموشی ایک ہی پل میں ٹوٹی۔
ایک دھند سی اٹھی، پردہ ہلا اور بیڈ تلے کوئی شئے سمٹ گئی۔
ایکسائٹمنٹ سے اسکی  دھڑکن تیز ہونے لگی۔گہری سانس لے کر دروازہ پورا کھول دیا۔ اندازے کے مطابق جہاں لائٹ کا سوئچ ہو سکتا تھا وہاں ہاتھ رکھا۔ بٹن دبایا  مگر کمرہ اندھیرا ہی رہا۔
اسکی نگاہ تاریکی سے کچھ مانوس ہوئی تو مشرقی   دیوار پر اسے کھڑکی کا گمان ہوا۔ آگے بڑھ کر اس نے جھٹکے سے پردے ہٹا دیئے۔
ایک دھول سی اٹھی اور دیوار گیر کھڑکیاں نمایاں ہو گئیں۔سورج کی روشنی سالہا سالوں سے بند کمرے کے ہر کونے تک یوں پہنچی کہ ہر منظر عیاں ہو گیا۔
رینا اپنی جگہ کھڑی رہ گئی۔
میرون اور سنہرے رنگ کی تھیم لیے وہ  شاندار سا کمرہ  ہم رنگ پردوں سے گھرا  ،نرم قالین اور آرائشات سے سجا ہوا اسے متحیر کر گیا۔ لکڑی کی مضبوط الماری پر بنے نقوش ونگار سے لے کر بیڈ کراؤن کا ڈیزائن ،اور سائڈ ٹیبلز تک کا سٹرکچر قابل دید تھا۔ دھول اور مٹی ہر ایک شئے پر جمی ہوئی تھی ، سالوں سے کسی شئے کو چھوا تک نہ گیا تھا۔
الماری کے شیشوں پر ایسی گرد کہ عکس دکھائی نہ دیتا تھا۔
سانس روکے وہ آہستگی سے قدم اٹھاتی گئی۔
سنگھار میز پر کاسمیٹک کی چند اشیاء دھری ہوئی نظر آئیں۔ایک کھلی ہوئی لپ اسٹک،کنگھی جس میں سنہری بال پھنسے تھے۔ ایک چھوٹی سی آئی شیڈو کٹ جس کے تمام شیڈ اب مٹ چکے تھے۔ پاس ہی ایرنگز رکھی تھیں۔ اٹھا کر دیکھا تو انکشاف ہوا وہ اصلی سونے کی تھیں۔
اس نے کچھ تجسس میں آکر  ڈریسنگ ٹیبل کی  دراز کھولیں  تو اسے کاسمیٹک کی دیگر اشیاء کے سوا سونے اور چاندی کی جیولری نظر آئی۔ وہ اپنی جگہ دنگ رہ گئی۔
گھر کے سابقہ مالکان نے گھر  چھوڑتے وقت اس کمرے سے یہ  سامان کیوں نہ لیا؟
وہ ایک ایک چیز کا جائزہ لیتی کچھ حیران پریشان بیڈ سائڈ ٹیبل کی طرف آئی اور اگلے ہی پل اسکا وجود پتھر ہو گیا۔
تو ثابت ہوا کل اس کے کان بج رہے تھے اور نہ کوئی  آواز اس کا وہم تھی۔ شیشے کا گلاس حقیقتاً گر کر ٹوٹا تھا۔اسکے ٹکڑے بھی بکھرے تھے۔ اور دھپ دھپ کی آواز جو اس نے واضح سنی تھی وہ اسی کمرے سے آئی تھی ۔۔۔
مگر  فرش پر انسانی قدموں کے نشان نظر نہ آتے تھے نہ کسی کی موجودگی کے آثار  دکھائی دیتے تھے۔
اس نے مضطرب ہو کر  رائٹنگ ٹیبل پر ترتیب سے رکھی کتابوں کو دیکھا، درازوں کا جائزہ لیا۔پھر اس نے الماری کھولی اور اسے حیرت کا ایک اور جھٹکا لگا۔
اندر خوبصورت،نفیس ملبوسات سلیقے سے لٹکے ہوئے تھے،
لمبے فراک،جھالر دار آستینیں،لیس سے سجے کالرز،موتیوں کی باریک کڑھائی اور مخملیں کپڑے جن پر سنہری دھاگوں کا جادو بکھرا تھا۔رنگوں کی ایک بہار تھی جو الماری سے جھلکتی تھی ، کپڑوں سے اٹھتی ایک مانوس سی گلاب اور چندن ملی خوشبو اس کے اطراف میں بکھر چکی تھی۔
یوں لگتا تھا کسی نے کپڑے ابھی ابھی دھو کر ،استری کر کے اور مسحور کن عطر میں سمو کر لٹکائے ہوں ۔
رینا کی آنکھوں میں حیرت لرز گئی، تاثرات میں تجسس کی جگہ کنفیوژن نے لی
کانچ کے ٹکڑے...قدموں کی آواز....جیلوری اور اب یہ صاف ستھرے ملبوسات!!
بیس سالوں سے بند اس کمرے میں آخر یہ کیسے ممکن ہوا تھا؟وہ  الجھن کا شکار ہوئی۔
کیا یہ کمرہ سچ میں بند پڑا تھا ؟ ہر طرح کا جائزہ لینے کے باوجود نہ اسے  آواز کی وجہ سمجھ آئی ،نہ آہٹ کا مصدر پتا چلا ۔
"یقیناً کمرے میں کل کوئی تھا۔" سوچ میں غرق اس نے سر اٹھائے سیلنگ کو دیکھا۔ "کسی نے گلاس توڑا ،اورصاف کپڑے بھی لٹکا دیئے ۔"
مگر ایسا کون کرے گا؟
کوئی ملازم ؟
اس نے گھوم کر  دھند آلود کھڑکیاں کھول دیں۔ سامنے کا منظر مسحور کن تھا۔ سڑک باغات ،اور دور کی وادیوں سمیت پہاڑیاں بھی نظر آ رہی تھیں۔
"رینا!!"
وہ ایک دم سے چونک کر مڑی۔دروازے میں ایما کھڑی تھی ۔ کمرے کی حالت دیکھ کر وہ ایک دم سے صدمے میں گئی   پھر ہوش میں آتے ہی چیخ پڑی۔
" تم وہاں..... تم اندر کیا کر رہی ہو!!" پیچھے ہٹ کر اپنی سکرٹ اوپر اٹھا لی ۔ رینا نے ایک لمبی سانس لے کر ہاتھ ڈھیلے چھوڑ دیئے۔
"اور یہ کمرہ تو بند تھا!یہ تم نے کیسے کھولا؟کس سے پوچھ کر کھولا؟!! "  اسکی مالکانہ فطرت ایک دم سے جاگی۔
لیزا  وہاں سے گزر رہی تھی رک گئی۔
" اف !!!!"
"کتنا برا حال ہے اس کمرے کا!!"
" اتنی  مٹی۔۔" لیزا نے اپنی ناک پر ہاتھ رکھا۔۔
"  تمہیں ڈر نہیں لگ رہا ؟ "
"کس بات سے ؟ " وہ ذرا سا زچ ہو کر دونوں کو دیکھ رہی تھی ۔
" اندر چوہے ہونگے ، مکڑیاں ہونگی بےوقوف ۔۔ تم نے یہ دروازہ کھولا ہی کیوں!؟ مام!! مام!!! " ایما نیچے بھاگ گئی۔
کچھ ہی دیر میں میشاء آنٹی  حاضر ہو گئیں۔ ایک سرسری سی نگاہ کمرے میں دوڑاتے انہوں نے چہرے پر ابھرتی ناگواری کا تاثر سب پر ظاہر کیا اور سامان پھینکوانے کا آرڈر دے کر چلتی بنیں۔رینا کو ایک دم سے ہوش آیا تو پیچھے بھاگی۔
"آنٹی مجھے یہ کمرہ چاہیے۔"
"تمہارا اپنا کمرہ ہے!"
" مجھے وہ کمرہ نہیں پسند۔"
"کمرہ نہیں پسند یا پھر کھڑکیاں نہیں پسند!" سوال لیزا نے کیا تھا۔وہ اس کی عادت سے بخوبی واقف اور بہت حد تک  عاجز تھی۔
" کیا تم نے اس کمرے کی حالت دیکھی ہے؟" میشاء آنٹی نے گھورا۔
" صفائی کی ضرورت ہے صرف۔ میں سب ٹھیک کر لوں گی۔"
"رینا!!"
"پلیز!!آپ مان جائیں نا!"
اس کے اصرار پر انہوں نے نہ چاہتے ہوئے بھی اسے  اجازت دے دی۔۔ ملازمہ کو صفائی کا  حکم صادر کرتے وہ نیچے چلی گئیں۔
لیزا اور ایمی دروازے میں کھڑی تھیں۔
" اب تم یہاں رہو گی۔۔"
" اس کمرے میں!!"
" ایو!!! "  کراہت سے جھرجھری لی گئی۔
رینا نے دروازہ ان کے منہ پر بند کر دیا۔وہ بڑبڑا کر رہ گئیں۔
                           ★★★★★★★★
الماری کے سارے کپڑے اس نے تہہ کر کے کارٹن میں رکھ دیئے۔اس کے بعد اس نے ڈریسنگ ٹیبل کی درازوں کو خالی کیا۔  ارادہ یہی تھا کہ جب اسے گھر کے سابقہ مالکان کا علم ہو گا تو وہ یہ سامان ان تک ضرور  پہنچا دے گی۔
اس کے بعد اس نے ملازمین کو اوپر بلا لیا۔اس کی زیر نگرانی کمرے کی صفائی ستھرائی کا کام شروع ہوا۔ہدایات دیتی وہ ایک بار پھر جائزے میں مصروف عمل ہو گئی تھی۔
ایک ایک چیز کو اٹھاتے رکھتے، جانچتے،پرکھتے وہ زہن مٰیں ابھرتے سوالات کا مناسب جواب تلاش رہی تھی۔
پہلے اسکا خیال تھا یہ گھر بیس سالوں سے بند پڑا تھا جیسا کہ میشاء آنٹی سے اس نے سن رکھا تھا۔مگر اب اسے ایسا نہیں لگ رہا تھا۔الماری میں لٹکے صاف کپڑے اس بات کی گواہی دے رہے تھے کہ انہیں اس خستہ حال کمرے میں لٹکایا گیا تھا۔کانچ کا گلاس جان بوجھ کر توڑا گیا تھا۔
لیکن پھر وہی سوال۔۔۔۔اگر کوئی اس کمرے میں موجود تھا تو اسکے قدموں کے نشان کیوں نہ تھے؟ اور اگر کوئی موجود نہیں تھا تو پھر یہ سب کیسے ممکن ہوا؟
اس نے کچھ سوچ کر مشکوک نگاہوں سے دونوں ملازماؤں کو دیکھا۔ یہ بات درست تھی کہ وہ ان کی آمد سے پہلے ہی اس گھر میں موجود تھیں مگر یہ دروازہ تو اس نے آج ہی کھولا تھا۔اور پھر کمرے میں ایسے آثار بھی تو نا تھے جیسے یہاں آمدرفت ہوتی رہی ہو۔
اپنی سوچ میں ڈوبی  وہ کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی۔ نیچے لان کے وسط میں ایک خالی کرسی رکھی تھی۔ اس پر پڑی میگزین کے صفحے ہوا کے زور سے ہل رہے تھے۔۔ سڑک سنسان تھی ۔مگر برابر والے گھر کی بالکنی میں ایک لڑکی کھڑی تھی۔اور وہ اسے ہی دیکھ رہی تھی۔

*******************                                        
شام کے دس بجے ملازمینکی انتھک محنت کے بعد کمرہ اپنی اصلی اور سحر انگیز حالت میں لوٹ آیا۔میشاء آنٹی ،لیزا اور ایما  نے دیکھا تو سراہے بنا نہ رہ سکیں۔کمرے کی آرائش وزیبائش دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔
’’اور کتنا کام باقی ہے!‘‘ انہوں نے پوچھا تھا۔
’’لائٹس کا کام ہو گیا ہے۔ اب مجھے اپنا سامان سیٹ کرنا ہے۔‘‘رینا بہت خوش نظر آ رہی تھی۔
’’اپنا سامان کل سیٹ کر لینا۔ اب کھانا کھا کر آرام کرو!‘‘ان کے لہجے میں اس کے لئے پیار ہی پیار تھا۔رینا نے مسکراتے ہوئے اثبات میں سر ہلا دیا۔
رات کا کھانا کھانے کے بعد جب وہ اپنے کمرے میں آئی تو گھڑی گیارہ بجا رہی تھی۔
دروازہ اچھی طرح سے بند کرنے کے بعد اس نے اطراف میں نگاہ دوڑائی۔سکون بھرا احساس رگے و پے میں سرایت کر گیا۔
اس نے اپنے بیگ سے کپڑے نکال کر بیڈ پر رکھے۔پھر  انہیں ہینگر میں لگا کر الماری میں لٹکانے لگی۔تب ہی  اچانک اس کی نظر الماری کی بیس پر پڑی جس کے ایک سائڈ پر چھوٹا سا ہوک لگا تھا۔اس نے ہوک پکڑ کر کھینچا تو بیس ایک طرف سلائڈ کر گئی۔ اندر سنہری تاروں سے لپٹا ایک چھوٹا ساباکس رکھا تھا۔
اسی پل  دور  سے  کتا بھونکنے کی آواز آئی۔ قمری کی نقرئی روشنیوں میں ٹھنڈی ہوا کھڑکیوں سے آ ٹکرائی۔
باکس اٹھا  کر اس نے کارڈ بورڈ سلائڈ کرنا چاہا مگر اگلے ہی پل ٹھٹھک کر رہ گئی۔
اندر  ایک کتاب پڑی تھی۔
اسے حیرت ہوئی ۔کہ باکس اٹھاتے وقت اسے یہ دکھائی نہ دی تھی۔ ہاتھ بڑھا کر اٹھائی تو جمی ہوئی گرد میں سرورق پر سنہری شاخوں کا نشان دکھائی دیا۔ کور جگہ جگہ سے جلا ہوا معلوم ہوتا تھا۔کنارے سیاہ لگتے تھے۔
اس کے ایک ہاتھ میں  باکس تھا اور دوسرے ہاتھ میں کتاب۔ اس نے سوچا وہ ان اشیاء کی جانچ پڑتال صبح کرے گی۔رائٹنگ ٹیبل میں رکھنے کے بعد اس نے اچھی طرح سے ہاتھ دھوئے اور لباس بدل کر سونے کے لیے لیٹ گئی۔
کمرے کی لائٹس آف تھیں۔اب صرف لیمپ جل رہا تھا۔
"تو رینا ابراہیم آشر! بیرینڈور میں اب یہ ہے تمہارا نیا کمرہ۔۔۔۔" وہ مسکرائی۔
کچھ دیر تک وہ سیلنگ کو تکتی رہی ۔ پھر اٹھ کر بیٹھ گئی۔
"پتا نہیں اس کمرے میں مجھ سے پہلے کون رہا ہو گا؟؟"
اسکی آواز ،مختلف اتار چڑھاؤ لیے کمرے کی خاموشی میں آہستگی سے گونجی تھی۔ ڈریسنگ ٹیبل کے درمیانی آئینے میں اسکا سائڈ عکس دھندلا ہوا تھا۔ وال کلاک کی ساکن سوئیاں متحرک ہونے لگیں۔ فرش پر بچھے قالین سے بند دروازے تک ایک سرد ہوا کا جھونکا اوپر کو اٹھا۔ گرم سانسوں کی دھند کھڑکی کے آئینے پر ابھر آئی ۔
  کچھ لمحوں کے بعد اس نے  ہاتھ بڑھا کر لیمپ آف کر دیا۔نرم وگداز بستر پر کروٹ کے بل لیٹتے ہوئے اس نے کمبل چہرے تک تان لیا تھا۔کچھ ہی دیر میں وہ نیند کی گہری وادیوں میں اتر چکی تھی۔ اس بات سے بے خبر کہ کونے میں کھڑا ایک سیاہ ہیولا اپنی جلتی ہوئی سرخ آنکھوں سے اسے دیکھ رہا ہے۔

                      ★★★★★★★★

Read Zanzaniya Episodes

👉Episode 01      👉Episode 02      👉Episode 03     👉Episode 04     👉Episode 05

Post a Comment (0)
Previous Post Next Post