Chapter:5 ان کہے سوال!
★★★★★★
شب کی تاریکی میں سناٹوں کا راج تھا۔جھینگروں کے شور میں قدموں کی چاپ دہلیز پر ابھری تھی۔دروازہ ہنوز کھلا تھا۔فرش بھیگا ہوا سا۔وہ اندر داخل ہوئی تو نیم تاریکی میں گھڑیال پر وقت نمایاں ہوا۔ دس بج کر تیس منٹ کا ہندسہ وجود کو جامد کر گیا۔
خاموشی کا وہ زور ایک آہٹ سے،بادلوں کی گرج سے اور پھر بجلی کی کڑک سے ٹوٹا۔مڑ کر دیکھا تو ادھ کھلے دروازے سے بارش کی بوچھاڑ نظر آئی۔
"یہ لڑکی۔۔۔۔ اوہ گاڈ!!" سیاہ گاؤن کی ڈوری باندھتے ہوئے میشاء آنٹی ڈائننگ ہال سے سیدھا اس کے پاس آ گئی تھیں،اسے سامنے سے ہٹاتے ہوئے انہوں نے دروازہ زور سے بند کر دیا تھا۔
"تم یہاں کیا کر رہی ہو۔۔" اسے بازوؤں سے پکڑ کر انہوں نے حیرت سے پوچھا تھا۔
وہ صدمے سے گنگ تھی کچھ کہہ نہ سکی۔نگاہ بھٹکتی ہوئی دیوار گیر کھڑکیوں پر جا ٹھہری جہاں بادلوں کی گرج میں بجلی کی چمک تھی،بارش کا شور تھا،آندھی کی آواز تھی۔ پل بھر میں یہ کیا ہوا تھا ؟اس نے تو صاف آسمان دیکھا تھا۔ چاند اور تارے دیکھے تھے۔ جنگل کے راستے ابھی تو وہ گھر پہنچی تھی۔
"رینا!!!!"
اسی لمحے اسٹڈی روم کا دروازہ کھل گیا تھا۔انکل بیرک آنکھوں پر گلاسز لگاتے باہر آئے تھے۔"کیا ہوا؟ یہ شور کیسا ہے !"
رینا پر نظر پڑتے ہی ان کے تاثرات بدلے تھے،آنکھوں میں سکتہ آ ٹھہرا تھا۔ اپنا داہنا ہاتھ انہوں نے کچھ بےقراری سے جیب میں اڑسا تھا۔ خشک لبوں کو تر کرتے وہ اس کے قریب ہوئے۔
"کیا ہوا؟ تم اتنی خوفزدہ کیوں ہو؟سب ٹھیک ہے؟" زرکار روشنی کے نیچے ان کا سایہ لمبا ہوا۔ نیم تاریکی میں تاثرات پیچیدہ ہوئے ۔
میشاء آنٹی اس کے پیچھے کھڑی تھیں، ان کے چہرے سے پریشانی ہویدا تھی۔
"رینا!!" اب کے انہوں نے اسے مخاطب کیا تھا۔
" مجھے نہیں یاد ۔۔۔۔ میں ۔۔۔۔ " اسکی آواز کانپی۔ " یہ دروازہ کھلا ہوا تھا میں اسے بند کرنے آئی ۔۔۔"
"ابھی آئی ہو ؟"
" ہاں!! ابھی آئی ہوں!" اسکی نگاہ جھکی ،اس کے لب ہلے ، بوڑھے
شخص کا سراپا آنکھوں میں لہرا گیا۔
"پتا نہیں دروازہ کس نے کھولا ہو گا۔ہم نیچے تھے ۔ہم نے تو کوئی آواز نہیں سنی۔"
ان کے عقب میں تاریک راہداری تھی۔اسٹڈی روم کا دروازہ ہلکا سا کھلا ہوا تھا۔
"کیا تم ٹھیک ہو؟" میشاء آنٹی نے اسکے گال پر ہاتھ رکھا۔
اس نے کس قدر کوشش سے اثبات میں سر ہلایا۔
"تم اب جاؤ ،آرام کرو!" کندھا تھپتھپا کر انہوں نے اشارہ کیا تو وہ سیڑھیاں چڑھتی اپنے کمرے میں بند ہو گئی۔
اور نیچے نیم تاریکی میں بند دروازے کے سامنے کھڑے انکل بیرک اور میشاء آنٹی ایک دوسرے کو دیکھتے رہ گئے تھے۔
★★★★★★★
"بیرینڈور کے لوگ بارش کی راتوں میں باہر نہیں نکلتے!"
اس نے واش بیسن پر گرفت جما کر سر اٹھایا۔ اسکی رنگت زرد،ہونٹ خشک و بےرنگ،آنکھوں میں ایک ہراس ٹھہرا ہوا تھا۔
"سایوں کے پیچھے مت بھاگا کرو۔سائے سراب ہوتے ہیں."
اس نے سائے کا تعاقب کیا ،بوڑھا یہ بات کیسے جانتا تھا؟؟ اس کی کلائی کی خراشوں نے اس کے وجود کو پتھر کیوں کر دیا تھا؟ بارش کے رکنے تک وہ گھر کے اندر ہی کیوں رہا تھا ؟
واش روم سے باہر آ کر اس نے اپنے کمرے میں نگاہ دوڑائی. کہیں بھی گیلی مٹی یا کیچڑ کے نشان نہ تھے، حتی کے کمرے کی کارپٹ،کھڑکی اور دیوار تک صاف نظر آتی تھی۔
کیا وہ منظر جو اس نے دیکھا ایک وہم یا خیال تھا؟ یا پھر ایک خواب ۔۔۔۔ !! کیا وہ اب خواب اور حقیقت میں تفریق سے قاصر ہے ؟
وہ رات بھر سو نہ سکی۔ تھکاوٹ سے بدن دکھتا رہا۔بازو میں تکلیف ہوتی رہی۔۔صبح کے پانچ بجے جا کر کہیں اسکی آنکھ لگی ۔نیم غنودگی میں اسے محسوس ہوتا رہا جیسے کوئی کان میں سرگوشی کر رہا ہو۔اگلے کئی گھنٹوں تک وہ بےخبر سوئی رہی۔ مگر جب سماعت نے کھٹ پٹ کی آواز پکڑی تو اس کے حواس بیدار ہو گئے۔فورا آنکھ کھل گئی۔
اس نے دیکھا کمرے میں دھواں بھرا ہوا تھا۔اور حالت ایسی جیسے اسکی کبھی صفائی نہ کی گئی ہو۔
یہ کیا ہو رہا ہے؟ وہ ایک دم سے گھبرا کر اٹھ بیٹھی پھر دروازہ کھول کر باہر آ گئی۔
اسے ایک دم سے جھٹکا سا لگا کہ پورا گھر اس وقت گرد ،مٹی اور دھند میں لپٹا ویران لگ رہا تھا۔۔۔
"آنٹی؟!! انکل؟؟؟؟لیزا۔۔۔؟؟؟؟ایما؟؟؟ " گھبراہٹ کے عالم میں آوازیں دیتی وہ آگے بڑھی۔ اس نے برابر والے کمروں کے دروازے بجائے ،کھولنے کی کوشش کی پر نہیں کھلے۔ ہانپتی کانپتی وہ تیزی سے سیڑھیاں اتر کر نیچے آئی۔۔۔
یہ کیا ہو رہا ہے؟؟ کیا وہ خواب دیکھ رہی ہے؟؟
صدر دروازہ کھلا ہوا تھا۔سورج کی زرد روشنی فرش پر آگے تک آئی ہوئی تھی۔۔ باہر کوئی تھا۔۔ آواز آ رہی تھی۔۔ اس نے شدت سے دھڑکتے دل کے ساتھ دروازے میں رک کر باہر دیکھا۔ جتنی ویرانی اس گھر پر اتری ہوئی تھی۔۔ اتنی ہی شادابی لان میں نظر آ رہی تھی۔۔سامنے ہی شاہ بلوط کے نیچے ایک لڑکی کھڑی تھی۔۔
اس نے آسمانی رنگ کا مخملیں لباس پہنا ہوا تھا۔اسکے سنہری گھنے لمبے اور چمکدار بال ہلکا سا کرل لیے پشت سے نیچے تک گرے ہوئے تھے۔ ہاتھوں میں پھولوں کا ایک گلدستہ تھا۔اسکی پشت رینا کی طرف تھی اور وہ سامنے ہاتھ ہلاتے ہوئے کسی سے بات کر رہی تھی۔
اسکی آواز نرم اور سریلی تھی۔ ہنسی کی جھنکار زندگی سے بھرپور لگتی تھی۔۔ وہ پھولوں میں کھڑی۔۔ پھولوں کا ہی حصہ لگ رہی تھی۔۔۔
"او ہیلو!!!!" دفعتا کسی نے بازو سے پکڑ کر ہلایا تو وہ ایک دم سے ہوش میں آئی۔۔
ایما آنکھیں پھاڑے اسے دیکھ رہی تھی۔۔
"ایسے کیا دیکھ رہی ہو تم؟؟" اس نے نظروں کے تعاقب میں دروازے سے گردن نکال کر باہر دیکھا۔۔
اپنی کیفیت اور احساسات سے خائف ہوتے رینا نے گردن موڑ کر گھر کے اندر دیکھا۔ اب نہ دھند تھی وہاں ۔۔نہ دھول اور مٹی کے آثار کہیں تھے ۔سب کچھ پل بھر میں بدل چکا تھا۔
لان کا منظر بھی اب مختلف ہو تھا۔۔نہ درخت اب وہاں تھا۔۔ نہ پھولوں کی کیاریاں نظر آ رہی تھیں۔
وہ آہستگی سے قدم اٹھاتی سیڑھیوں پر بیٹھ گئی۔
"کیا تم ٹھیک ہو؟" ایما کو تشویش ہوئی۔اور اگلے ہی پل اس کے بالوں پر نظر پڑتے ہی اسکی آنکھیں اشتیاق سے پھیلیں۔ "اوہ واو۔۔۔۔تمہارے بال۔۔۔تمہارا جادو!!!"
رینا کا داہنا ہاتھ بےاختیار بالوں تک اٹھا ۔اسکے چہرے کے تاثرات میں خوف ٹھہر گیا۔
"تم تو کہتی تھیں اب ایسا نہیں ہوتا۔تم جھوٹ بولتی ہو؟؟تمہارے بال تو اب بھی۔۔۔۔"
"شٹ اپ ایما۔۔۔۔" اس نے تیزی سے اسکی بات کاٹی۔موڈ پہلے سے آف تھا،ایما کی باتوں سے مزید بگڑ گیا۔وہ اسی وقت اپنے کمرے میں واپس آ گئی۔
یہ میرے ساتھ کیا ہو رہا ہے ؟؟بند دروازے کے ساتھ پشت ٹکائے اب وہ لمبی سانسیں لے رہی تھی۔
چند لمحوں کے بعد اس نے پلکوں کی جھالر اٹھائی۔ کمرے کی موجودہ حالت اسے شاک میں مبتلا کر گئی۔
وارڈ روب کھلی ہوئی تھی۔ اس کے تمام کپڑے نیچے بکھرے پڑے تھے۔رائٹنگ ٹیبل کی درازیں بھی باہر کو نکلی ہوئیں تھیں۔سامان ادھر ادھر پھیلا ہوا تھا۔واضح لگ رہا تھا کہ اس کی غیر
موجودگی میں کوئی اس کے کمرے میں داخل ہوا ہے ۔
آسمانی رنگ کا ایک لباس رینا کے بیڈ پر پڑا تھا جس پر نظر پڑتے ہی وہ شاکڈ رہ گئی۔یہ سابقہ مالکن کا وہ جوڑا تھا جسے وہ دوسرے کپڑوں کے ساتھ بیڈ کے نیچے رکھ چکی تھی۔ابھی کچھ دیر پہلے جو لڑکی اسے لان اور گھر میں ٹہلتی نظر آئی تھی اس نے بھی یہی لباس زیب تن کیا ہوا تھا۔
کون آیا تھا یہاں؟ کون کر رہا ہے یہ سب؟
اس نے رائٹنگ ٹیبل کی درازوں کا جائزہ لیا تو معلوم ہوا ڈبہ غائب ہے۔
وہ تیزی سے پلٹی۔اس سے قبل کہ وہ کمرے سے باہر نکلتی‘واش روم سے شاور کی آواز سن کر بے اختیار رک گئی۔ ایک سرد لہر اس کی رگ و پے میں سرایت کر گئی۔
’’کون ہے ؟’’اس نے سنبھل کر بلند آواز میں پوچھا۔
جواب ندارد…شاور بدستور گرتا رہا۔
اس نے ہینڈل گھمایا۔دروازہ اندر سے بند تھا۔
’’کون ہے اندر!؟؟‘‘دروازہ بجاتے ہوئے اس نے غصے سے پوچھا۔
اسی لمحے لاک کھل گیا مگر کوئی باہر نہ آیا۔شاور ابھی تک چل رہا تھا۔
چند لمحوں کے بعد اس نے دروازہ اندر کی جانب دھکیل دیا۔
واش روم کا اندرونی منظر اس کی توقع کے برعکس تھا۔نہ شاور چل رہا تھا اور نہ ہی کوئی موجود تھا۔
وہ طوفان کی زد میں بے یقینی سے کھڑی رہ گئی تھی۔
بھوت پریت پر یقین نہ رکھنے والی رینا ابرہیم اس پل سمجھ نہ پائی اس کے ساتھ کیا ہو رہا تھا۔ کیا یہ بارش کا اثر تھا۔وہ اثر جس کا ذکر ڈائری میں ہوا تھا؟ ایک سنسناہٹ سی اس کی رگ و پے میں دوڑ گئی تھی۔
★★★★★★★
★★★★★★★
"یہ یادیں کتنی خوبصورت ہیں!!!"
"بہت زیادہ!!!" انکل بیرک تصاویر کا البم دیکھتے مسکرائے۔میشاء آنٹی ان کے پاس آ گئیں۔ "کبھی سوچا نہیں تھا ہمیں بھی ایسا گھر مل سکتا ہے۔۔"
"اور بچے بھی۔۔۔"انہوں نے شوہر کی بات ہنستے ہوئے مکمل کی۔لاونج کے پاس سے گزرتے ہوئے رینا نے رک کر انہیں دیکھا۔ میشاء آنٹی کی مسکراہٹ ایک دم سے تھمی۔
"کہیں جا رہی ہو؟"
"ہاں پارک تک ۔۔۔۔وہیں ایک بوکسٹور ہے۔کتاب خریدوں گی!"
انہوں نے اثبات میں سر ہلاتے اسے جانے کی اجازت دی ۔صدر دروازے کی جانب بڑھتے ہوئے اسکی نگاہ مرکزی ہال کے سامنے استادہ آئینے پر پڑی جس پر دراڑ سی پڑی ہوئی تھی۔ سر جھٹک کر وہ باہر نکل گئی۔
مونگیائی ٹرازرز پر سفید سویٹر میں ملبوس ، کراس بیگ کندھے سے لٹکائے وہ ساروک اسٹریٹ پر چلتی جا رہی تھی ۔ سفید مفلر گردن سے لپٹا تھا ۔ اسٹپ کٹے بال شانوں پر بکھرے تھے ۔نیلی
بلوریں آنکھوں میں سرخی پھیلی ہوئی تھی۔ وہ رات بھر سو نہیں سکی تھی یہ اس کے چہرے پر واضح لکھا ہوا تھا ۔ مگر آرام کے بجائے اس نے تجسس مٹانے کی چاہ کی تھی ۔
بوڑھے سے ملاقات کا فیصلہ اس نے گزشتہ شب ہی کیا تھا ۔ کچھ سوالوں کے جواب صرف وہی دے سکتا تھا کچھ باتیں صرف وہی سمجھا جا سکتا تھا۔رینا ڈائری بھی ساتھ لائی تھی ۔تاکہ بوڑھا جب کسی بات کے حوالے سے انجان بنے تو وہ بارش کی راتوں کے حوالے سے وہ تنبیہہ اسے دکھا سکے۔
وہ گھر سے نکل تو آئی تھی مگر اسے راستے کا کچھ علم نہ تھا ۔
اندازتا باغ کے اندرونی راستے پر چلتے ہوئے وہ اس راہ کو پہچاننے کی کوشش کرتی رہی جو اسے سڑک تک لائی تھی۔ اپنے اطراف میں نگاہ دوڑاتی وہ محتاط ہو کر قدم اٹھاتی رہی یہاں تک کہ وہ کچا راستہ دو حصوں میں منقسم ہو کر ختم ہو گیا۔ ایک بگڈنڈی دائیں طرف جبکہ دوسری بائیں جانب ڈھلوان کی طرف جا رہی تھی۔
اسے ڈھلوان کا وہ راستہ اچھے سے یاد تھا تبھی بنا کسی تردد کے وہ نیچے اتر گئی۔باغ کی آخری باڑ وہیں ختم ہو گئی۔ اس سے آگے پتوں سے گھرا ایک تنگ راستہ گھنے جنگل میں گم ہوتا دکھائی دیا ۔ہمت مجتمع کیے وہ آگے بڑھی تو اس کے عقب میں پرندوں کی آواز کہیں تھم گئی، ہوا کی حرکت ختم ہوئی اور ہر جانب دور تک سناٹا چھا گیا۔ نرم مٹی پر اس کے قدموں تلے کئی پتے چرمرا گئے۔ فضاء کی نمی میں اسے پرانی لکڑیوں اور گیلی مٹی کی باس محسوس ہونے لگی۔
اچانک درختوں کے وسط سے اسے ایک مخروطی چھت والے مکان کی جھلک دکھائی دی۔وہ جھاڑیوں سے نکل کر رک گئی۔
اس کے قدموں سے مکان کے دروازے تک روش بنی ہوئی تھی ۔اسے وہ روش اور اس کے اطراف میں پھیلا سبزہ یاد تھا مگر وہ پھول یاد نہیں تھے جو موتیوں کی طرح جگہ جگہ پر اگے ہوئے تھے۔ مکان پر نگاہ پڑی تو وہ حیران رہ گئی۔
دھند میں لپٹا مٹیالا سا گھر صدیوں پرانا لگتا تھا۔مخروطی چھت پر سبز اکائی جمی ہوئی تھی۔کھڑکیوں کے شیشے دھندلے تھے۔ بند دروازہ ٹوٹا ہوا تھا۔ لکڑی کی دیواریں جگہ جگہ سے سیاہ تھیں۔یوں لگتا تھا آگ لگی ہو جسے بےقابو ہونے سے قبل بجھا لیا گیا ہو۔
اسے گمان ہوا وہ غلط جگہ پر آ گئی ہے۔مگر راستہ وہی تھا۔۔
دروازہ بھی وہی۔۔ کھڑکیوں پر لگی ہوئی سلاخیں بھی وہی۔۔۔
منتشر دھڑکنوں کے ساتھ اس نے روش پر قدم رکھا۔ یکایک ساکت فضاء میں ارتعاش پیدا ہوا، شاہ بلوط کی شاخوں میں جنبش ہوئی۔سفید پھولوں سے ہوتا ہوا کا جھونکا اس کے بالوں کو چھو کر گزر گیا۔
وہ دروازے کے قریب پہنچ کر رک گئی۔تالہ اسکے قدموں میں پڑا تھا، زنجیر ٹوٹی ہوئی تھی۔ اس نے ادھ کھلے دروازے کو دھکیل کر اندر داخل ہونے کا راستہ بنایا ۔ عقب میں کہیں جھاڑیوں میں سرسراہٹ ہوئی۔ایک کمزور سی شاخ کسی شئے کے وزن سے ٹوٹی تھی۔
اپنے اطراف سے بےنیاز ہو کر سٹپس پر قدم جمائے اب وہ اندر دیکھ رہی تھی۔ اندرونی منظر اس کی توقع کے برعکس تھا۔
خالی گھر۔۔ نہ بستر ، نہ کتابوں کے ریک۔۔۔نہ برتن ۔۔ہتھیار۔۔ اور نہ کوئی سامان۔۔۔
وہ صدمے سے گنگ کھڑی رہ گئی۔
گھر کی در دیوار پر جگہ جگہ آگ نے اپنی سیاہی چھوڑ رکھی تھی۔ تختے تک اکھڑے ہوئے تھے۔ کھڑکیوں کے شیشے توڑ پھوڑ کا شکار تھے۔۔
یہاں کیا ہوا ہو گا؟ خوف پر قابو پائے اس نے متحیر ہو کر سوچا تھا۔
مکڑی کے جالے کونوں میں تنے ہوئے۔ گرد اور مٹی سے فرش اور کھڑکیاں اٹی ہوئی۔سامنے کا دروازہ آج بھی بند تھا۔حیرت زدہ سی وہ دروازے میں کھڑکی رہ گئی تھی۔ یوں لگتا تھا یہ گھر صدیوں سے غیر آباد پڑاہو۔۔
۔اسکی نگاہ بھٹکتی ہوئی میز پر رکھے فریم پر پڑی جو اوندھا پڑا ہوا تھا۔ بیگ اسٹرپس پر گرفت جمائے وہ اندر چلی گئی۔ لکڑی کے فرش پر اسکے قدموں کے وزن سے آواز پیدا ہونے لگی ۔
اور اسی لمحے مکان کے اندر روشنی یوں مدھم ہوئی جیسے کوئی دروازے میں آ کھڑا ہو۔
رینا کا سانس رک گیا۔ دھڑکنیں تھم سی گئیں۔پیچھے کوئی تھا۔۔یقینا کوئی تھا۔۔۔اس سے قبل کہ وہ اپنا رخ بدلتی ' اس کے کندھے پر ہاتھ آ ٹھہرا ۔جھٹکے سے پلٹی تو انتہائی بھیانک چہرہ سامنا تھا۔خوف کی شدت سے چیختے ہوئے اس نے دونوں ہاتھوں سے اس چہرے کو پوری قوت سے پرے دھکیلا ، اور خود میز سے ٹکراتی دیوار سے جا لگی۔
مقابل کا پاؤں فرش کے شغاف میں کہیں پھنسا اور وہ سیدھا
فرش پر جا گرا۔
آنکھوں میں دہشت لیے اب وہ قبیح چہرے کو دیکھ رہی تھی جو لمبے بالوں کی زد میں چھپا ہوا تھا۔وجود انسانی تھا مگر شکل ۔۔۔وہ شکل۔۔۔
اور وہ شکل کسی کپڑے کی طرح کھنچ کر اتر گئی، پہلے لب بھینچ کر کراہ دبائی گئی ،پھر کہنیوں کے بل اٹھنے کی کوشش کی گئی اور تبھی اسکا چہرہ عیاں ہوا۔۔
نفاست سے کٹے سیاہ بال ، سبزی مائل گہری آنکھیں ، رنگت صاف اور جسم کسرتی۔عمر یہی انیس بیس تک ہو گی۔
اپنی منتشر دھڑکنوں کے ساتھ رینا ابرہیم کا رکا ہوا سانس ایک انسانی چہرے کو دیکھ کر ایک دم سے بحال ہوا۔
"اوہ گاڈ!!" نوجوان نے ایک دم سے سر اٹھایا۔اسکی آنکھوں میں پہلے حیرت اتری،پھر خفگی آ ٹھہری ۔اپنے کپڑے جھاڑ واڑ کر وہ اٹھ کھڑا ہوا۔
"تم نے تو مجھے ڈرا ہی دیا!"
رینا کو پہلے تو اس کی بات سمجھ نہ آئی اور جب سمجھ آئی تو ۔۔۔۔۔
’’میں نے تمہیں ڈرایا ہے!؟" انگلی سے اپنی جانب اشارہ کرتے اس کا لہجہ سخت ہوا۔"تم میرے پیچھے آئے،میرے کندھے پر ہاتھ رکھا۔تم نے مجھے ڈرایا ہے!" اشارہ ماسک کی طرف تھا۔
"کمال ہے،تمہیں اپنی چیخ نظر نہیں آ رہی؟میرا ماسک نظر آ رہا ہے ؟؟میرا ہارٹ فیل ہو سکتا تھا ؟؟ میں مر بھی سکتا تھا۔"
"اور یہ ماسک پہن کر جس طرح تم اندر آئے ۔۔۔اس سے کوئی مر نہیں سکتا تھا؟؟"
وہ لمحے بھر کے لیے ٹھٹھکا۔ "اپنی چیخ کا مقابلہ تم میرے ماسک سے کر رہی ہو؟اس بےچارے میں ایسا ہے ہی کیا جس سے ڈرا جائے ؟؟؟۔۔۔کوئی بھی دیکھ کر بتا سکتا ہے یہ نقلی ہے۔"
بہت ضبط کے ساتھ اس نے لب بھیج لیے۔
" اور کیا یہ تمہارا گھر ہے؟" آنکھوں میں شک ٹھہرا کر نوجوان نے اسے گھورا۔
"تمہیں مطلب ؟"
"بلکل مطلب ہے۔تم بغیر دستک کے اندر آئی ہو ۔"
"کیا بکواس ہے یہ!"
"بکواس میں بلکل بھی نہیں کر رہا۔" تعجب کا اظہار کرتے اس نے جھک کر ماسک اٹھایا ۔
"تو کیا تم نے دی تھی؟" وہ بھنائی۔
"ویران سا گھر ہے ،کوئی ہے ہی نہیں تو دستک کیوں دوں؟"
رینا کا پارہ صحیح معنوں میں چڑھ گیا تھا۔
"پھر مجھ سے کیوں باز پرس کر رہے ہو!"
"میں نے سوچا تمہیں کچھ آداب یاد دلا دوں۔گھر ویران اور سنسان ہو تب بھی دستک لازمی دینی چاہیے!!" اسکا خوشگوار سا لہجہ یک دم پراسراریت میں ڈھلا۔مسکرا کر اس نے بیگ پیک ایک کندھے سے دوسرے کندھے پر منتقل کیا۔" یہ میں نہیں کہہ رہا۔یہاں کے لوگ کہتے ہیں!"
پھر اس نے جیب سے موبائل نکال کر خالی دیوار اور سامنے والے دروازے کی دو تصاویر لیں۔
’’ایسے پتھر بنی ہوئی تھیں تم۔میں تو پریشان ہو گیا کہیں کھڑے کھڑے تم فوت تو نہیں ہو گئیں!‘‘ اس نےپھر میز سے فوٹو فریم اٹھا لیا۔ایک نظر ڈال کر واپس رکھ دیا۔
’’دراصل میرا دماغ چل جانے کی بھی کئی وجوہات ہیں ۔" اس نے گفتگو کی تمہید از سر نو باندھی۔
" کچھ دن پہلے کی میں کلائبنگ کے لیے ھیڈرا پارک گیا تھا۔پہاڑی سے پاؤں پھسلا اور میں ڈائریکٹ نیچے۔۔۔خدا کا شکر ہے کہ زیادہ بلندی پر نہیں تھا ورنہ اخباروں میں خبر چھپتی،’’ اٹھارہ سال کے ایک نوجوان لڑکے نے زندگی سے تنگ آ کر خودکشی کر لی!‘‘ اب میں موت کے بعد انہیں یہ بتانے سے تو رہا کہ میں نے خودکشی نہیں کی ہے، میرا پاؤں پھسلا تھا۔میری رسی کمزور تھی۔۔۔ خیر پھر میں نے آبشار دیکھنے کا ارادہ کیا۔ اور مجھ سے میرے منحوس گائیڈ نے کہا کہ جنگل سے گزرتے سارے راستے محفوظ ہیں۔ وہاں تو بلی کا بچہ بھی نہیں گھومتا۔ٹھیک کہا تھا اس نے۔ وہاں بلی کا کوئی بچہ واقعی میں نہیں تھا کیونکہ سیاہ رنگ کے پلے پلائے بھیڑئیے جو ہر وقت کیٹ واک کرتے رہتے تھے۔ میں نے غلطی یہ کی کہ گائیڈ کی بات پر یقین کر لیا۔اس کے بعد میں تھا اور وہ بھیڑئیے تھے۔پورے چالیس منٹ تک پکڑن پکڑائی جاری رہی۔۔قسمت اچھی تھی میری اور میں بچ گیا ورنہ اخبار میں خبر چھپتی،‘‘بریکنگ نیوز۔۔۔اٹھارہ سال کے ایک بہادر نوجوان کی پراسرار موت کا معمہ حل۔گائیڈ نے غلط بیانی کا اعتراف کر لیا۔۔۔بھیڑئیے اپنی غلطی پر شرمندہ ہیں مگر اب کچھ نہیں ہو سکتا….‘‘
روانی سے بولتے ہوئے وہ اپنی روداد ایسے سنا رہا تھا جیسے صدیوں کی شناسائی ہو یا ان کے درمیان روزمرہ معمولات پر اسی طرح کی بات چیت ہوتی رہتی ہو۔باتونی لوگ تو رینا کو
ویسے بھی زہر لگتے تھے۔کام کی بات ہو نہ ہو فضول میں بولتے رہو۔اس نے تپ کر سوچا۔
’’ابھی کل ہی کی بات ہے، میں میوزیم گیا۔‘‘رینا کے تاثرات سے قطعی بےنیاز اس نے اپنی کمنٹری جاری رکھی۔
’’میں جھک کر ایک تحریر پڑھ رہا تھا،جو سیاح میرے ساتھ تھے وہ گائڈ کے ساتھ آگے چلے گئے،انتطامیہ نے سمجھا ھال خالی ہو چکا ہے ۔۔ انہوں نے دروازے بند کر دیئے۔سکیورٹی کا عملہ خراٹے لے رہا تھا ورنہ وہ اتنا تو جان ہی سکتے کہ میں اندر موجود ہوں۔ خیر میں پورے دو گھنٹے اندر بند رہا، اگر گارڈ کو میری آواز سنائی نہ دیتی تو یقینا اگلے بارہ گھنٹوں تک بند ہی رہتا، اور پھر اخبار میں خبر چھپتی۔۔۔۔۔۔‘‘
اس کے پاس ہر مصیبت کے اختتام پر ایک عدد بریکنگ نیوز لازمی ہوتی تھی۔
کیا یہ لڑکا پاگل ہے؟ اس نے سوچا۔ بھلا کوئی راستے میں ٹکرا جانے والے کسی اجنبی سے اتنی لمبی باتیں کرتا ہے!؟؟ ۔
’’آج تو انتہا ہو گئی۔ ایک ویران گھر میں تمھارا سامنا…یقین کرو میں اتنی بری طرح سے پہلے کبھی نہیں ڈرا۔‘‘ ساتھ ہی سینے پر ہاتھ رکھ کر گہری سانس لی جیسے وہ مرتے مرتے بمشکل بچا ہو۔پھر اسکی آنکھیں کسی خیال کے تحت چمک اٹھیں۔
’’ایسا ہی ہوتا ہے نا ہارر موویز میں۔‘‘ ڈرامائی انداز اختیار کرتے ہوئے وہ آگے کو جھکا،’’ ہیرو سنسان گھر میں داخل ہوتا ہے۔سامنے ایک چڑیل جیسی پراسرار سی لڑکی کھڑی ہوتی ہے۔ہیرو اپنی موجودگی کا احساس دلانے کی کوشش میں آہٹ پیدا کرتا ہے۔لڑکی پھر بھی مڑ کر پیچھے دیکھتی ہے، نہ کوئی رسپانس دیتی ہے۔۔۔‘‘
رینا کے چہرے پر ایک رنگ آنے لگا، دوسرا جانے لگا۔
’’ ہیرو ہمت مجتمع کر کے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتا ہے۔چڑیل ایک جھٹکے سے چیختے ہوئے مڑتی ہے اور ہیرو وہیں ختم۔۔۔۔۔"
وہ خود کو ہیرو اور اسے چڑیل سے تشبیہہ دے رہا تھا۔حد ہے!!
’’کتنی خوش فہمی ہے تمہیں اپنے ہیرو ہونے کی!‘‘ وہ جل کر بولی تھی
’’تم جیسی چڑیلیں نظر آ جائیں تو ہو ہی جاتی ہے!‘‘ تپا دینے والی مسکراہٹ کے ساتھ اس نے جیبوں میں ہاتھ ٹھونس لیے ۔پھر وہ ایک دم سے چونک اٹھا۔
’’ میں یہاں کرنے کیا آیا تھا!؟‘‘ خود سے سوال کر کے کچھ یاد آ جانے والے انداز میں ’’اوہ ہاں۔۔۔‘‘کہہ کر وہ تیزی سے باہر نکل گیا۔
گہری سانس لے کر رینا نے میز پر سے فریم اٹھا لیا۔کریک کی زد میں پھولوں کے جھرمٹ میں بیٹھی کسی خاتون کا سراپا نظر آ رہا تھا۔دھندلا۔۔مٹا ہوا سا۔۔ کافی پرانی تصویر تھی۔۔۔اس نے فریم واپس رکھ دیا۔ ایک طائرانہ نگاہ پورے گھر میں دوڑائی۔۔۔فقط دو دن کی مختصر مدت میں یہ مکان اتنا غیر آباد اور خستہ حال کیسے ہو گیا تھا؟اسکی آنکھوں میں بےیقینی کے ساتھ تشویش لہرا گئی۔
کچھ دیر بعد وہ باہر آئی تو سامنے ہی وہ لڑکا پھولوں کی مختلف زاویے سے تصویریں کھینچتا نظر آیا۔رینا اسے مکمل نظرانداز کرتی پتھریلی روش پر قدم اٹھانے لگی۔
"کل پارک میں میری ایک بوڑھی عورت سے ملاقات ہوئی تھی۔اس نے کہا ویران گھروں کے پاس جو پھول اگتے ہیں انہیں کبھی نہیں توڑنا چاہیے۔"
رینا کے قدموں کی رفتار یکایک سست پڑی۔گردن موڑے وہ اسے دیکھنے لگی۔
’’میں نے پوچھا اس سے کیا ہو گا ؟کہنے لگی جنہوں نے پھول وہاں اگا رکھے ہیں وہ تمہیں بتا دیں گے۔‘‘
اس نے اٹھ کر مختلف زاویے سے چند اور تصویریں لیں۔۔ ایک اس مکان کی بھی۔۔
’’میں نے ان سے پوچھا، کہیں(بیوٹی اینڈ دی بیسٹ) کی کہانی تو نہیں دہرائی جائے گی!؟میں پھول توڑوں گا اور کوئی بیسٹ نکل کر سامنے آ جائے گا؟! ‘‘ دھیرے سے ہنس کر اس نے رینا کی طرف رخ کیا۔۔ "وہ مجھے بے وقوف‘ لاپرواہ اور پاگل نسل کے خطاب سے نواز کر چلی گئیں۔‘اب دیکھنا یہ ہے کہ یہاں کے توہم پرست لوگ اپنی باتوں میں کہاں تک سچے ہیں۔‘‘ اس نے جھک کر ایک جھٹکے سے پھول توڑ لیا۔
رینا دم سادھے اپنی جگہ کھڑی رہ گئی۔ وہ بھی سانس روکے پھول کو دیکھنے لگا۔دونوں منتظر تھے کہ کب کچھ ہو ۔مگر ہوا صرف یہ کہ ایک کوا چیختا ہوا ان کے اوپر سے گزر گیا۔
نوجوان کا چہرہ اتر گیا، کندھے مایوسی سے جھک گئے۔وہ کچھ اور ایکسپکٹ کر رہا تھا۔غالباً کوئی نئی مصیبت!
’’ اطلاع کے لیے عرض ہے پھول کی کوئی خوشبو نہیں ہے..‘‘اس نے کہا۔
اور پھولوں کی خوشبو سے تو فضا معطر تھی۔
’’میرے تو کسی کام کا نہیں۔تمہیں پسند ہو تو رکھ لو!‘‘اس نے دور سے ہاتھ ہلایا۔
جواباً رینا نے آنکھیں دکھائیں۔
’’تم نے یقین بھی کر لیا؟میں بھلا تمہیں وہ پھول کیوں دوں جسے توڑنے کے لیے مجھے اپنی اپنی جان ہتھیلی پر رکھنا پڑی؟؟ "
وہ سر جھٹک کر آگے بڑھ گئی۔
’’غصہ انسانی صحت کے لیے اچھا نہیں ہوتا..‘‘نوجوان کی آواز بلند ہوئی تھی۔
" مسکرایا کرو، مسکرانے سے نہ کرنٹ لگتا ہے، نہ پیسے خرچ ہوتے ہیں،‘‘ دور سے ہاتھ ہلاتے ہوئے وہ بائیں طرف نظروں سے اوجھل ہو گیا.
لب بھینچ کر رینا نے اپنی رفتار بڑھا لی تھی۔ اسکے لیے آج کا دن انتہائی برا دن تھا۔۔
★★★★★★★
Read Zanzaniya Episodes