Zanzaniya novel by Husna Hussain - Episode 07

 

Zanzaniya novel by Husna Hussain - Episode 07

Chapter:7 مدد

باب:7 مدد

دفعتاً رینا کی کلائی  آہنی شکنجے میں آ گئی ۔ایک جھٹکے سے کسی نے  اپنی طرف کھینچا۔پل بھر کا کھیل تھا۔موت کو شکست ہوئی۔ دونوں گہری کھائی کی دوسری طرف آ گرے۔

تیز سانسوں اور شدت سے دھڑکتے دل کے ساتھ اس نے سر اٹھایا۔۔۔

نظر کچھ ہی فاصلے پر چمڑے کے سیاہ جوتوں پر جا ٹھہری

نگاہیں بے اختیار اوپر کو اٹھتی  چلی گئیں۔سامنے پچیس چھبیس برس کا ایک پراسرار سا طویل القامت نوجوان کھڑا تھا.

اس کی پیشانی پر بے ترتیبی سے سیاہ بال  بکھرے تھے ۔گہری بھوری آنکھوں میں غضب ٹھہرا تھا،سختی سے بھنچے  ہونٹ 

غصہ دبائے ہوئے تھے۔

سیاہ ٹراوزرز پر اس نے لمبے جوتے چڑھا رکھے تھے ، چست شرٹ پر لمبا کوٹ زیب تن کر رکھا تھا جس کے آگے کے حصے نقرئی زنجیر سے جڑے ہوئے تھے۔داستانوں میں مقید انگلیاں بھنچی ہوئی تھیں۔۔

وہ سرد نگاہوں سے رایل کو دیکھ رہا تھا۔۔۔ رایل ۔۔۔جو بند آنکھوں کے ساتھ بڑی فرصت سے لیٹا’’میں مر چکا ہوں!!ہاں میں مر چکا ہوں! اوہ خدایا! میں ہی کیوں!؟میرے ساتھ  ہی کیوں!؟‘‘ وغیرہ وغیرہ کی گردان میں مصروف تھا۔

اس نے ابھی تک آنکھیں کھول کر اس نوجوان کو نہیں دیکھا تھا۔ وہ دیکھنا بھی نہیں چاہتا تھا۔ اسے تو جیسے ابھی تک یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ وہ زندہ ہے،سلامت ہے۔

مگر پھر جانے کس خیال کے تحت   اس نے  خاموشی سے کچھ گھبرا کر آنکھیں کھول دی تھیں۔اسکی نگاہ جیسے ہی اجنبی نوجوان پر نظر پڑی 'چہرے کا رنگ فق ہو گیا۔

بوکھلا کر فوری طور اس نے  بچاؤ کے لیے اٹھنا چاہا مگر نوجوان اس سے زیادہ پھرتیلا تھا۔ایک ہی جست میں رایل کا گریبان سے دبوچے اسے زمین کے ساتھ پٹخ دیا۔

رینا اس افتاد پر بوکھلا گئی۔اپنی جگہ سے اٹھتے ہوئے جھٹ سے دو چار قدم دور ہو گئی۔ 

’’تم ابھی تک یہاں سے دفع نہیں ہوئے؟!‘‘اسکا لہجہ سخت کھردرا سا تھا۔

رایل نے اپنا گریبان چھڑانے کی کوشش کی۔ 

’’تمھاری جان بچانے کا ٹھیکہ لے رکھا ہے میں نے!؟‘‘وہ اس کے سینے پر دباو ڈالتے ہوئے غرایا۔

رایل نے گھبراہٹ کے عالم میں پہلے اثبات میں پھر نفی میں سر ہلا دیا۔

’’منع کیا تھا میں نے تمہیں!!‘‘اس نے گریبان چھوڑ کر اسے گردن سے دبوچ لیا۔ 

رینا گھبرا گئی۔

’’تم نے مجھے جنگل میں آنے سے منع کیا تھا،‘‘اپنی گردن چھوڑاتے ہوئے رایل بمشکل کہہ سکا۔

’’میں نے تمہیں اس جگہ سے  دفع ہو جانے کا کہا تھا،‘‘ وہ دبی آواز میں دھاڑا۔’’مرنے کا بہت شوق ہے تمہیں؟‘‘

اب کے رایل  نے  فوراً سے نفی میں گردن ہلائی مباداہ وہ شوق سمجھ کر اسے مار ہی نہ ڈالے۔


’’اگر آج کے بعد تم مجھے یہاں گھومتے پھرتے نظر آئے تو میں تمھاری ٹانگیں توڑ دوں گا۔سمجھے تم!!’’ سخت لہجے میں دھمکی دیتے ہوئے اس نے رایل کو جھٹکے سے چھوڑ دیا۔

دل پر ہاتھ رکھے وہ وہیں  سا ڈھے گیا۔

نوجوان نے اٹھتے ہوئے ایک سرسری سی نگاہ رینا کے پریشان حال چہرے پر ڈالی پھر تیز تیز قدم اٹھاتا وہاں سے چلا گیا۔

کون تھا یہ؟رینا کو  اس کی شخصیت کے سحر سے نکلنے میں میں کچھ وقت لگا۔ اور پھر ایک ہی جست میں اس نے جس طرح ان کی جان بچائی۔۔۔۔ اگر وہ نہ آتا تو شاید۔۔۔ 

گہری کھائی کے تصور سے اسکے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ 

رایل اپنے کپڑے جھاڑتا  اٹھ چکا تھا۔یکایک وہ کچھ یاد آ جانے والے انداز میں چونکا اور پھر انتہائی غصے کے عالم میں رینا کی طرف گھوم گیا۔

’’خدا نے یہ جو آنکھیں دی ہیں یہ دیکھنے کے لیے دی ہیں۔‘‘

’’جانتی ہوں میں!‘‘وہ جل گئی۔

’’ خاک جانتی ہو تم! اور اس طرح آندھی طوفان کی طرح میرے پیچھے آنے کی کیا ضرورت تھی؟؟‘‘

رینا اسے دیکھ کر رہ گئی۔کیا موت سے ہیلو ہائے کرنے کے بعد اس میں اتنا دم   ہے کہ وہ اس لہجے میں رینا ابراہیم سے بات کر سکے؟اسے مورد الزام ٹھہرا سکے؟َرینا کا چہرہ سرخ ہو گیا۔

’’اتفاق سے مجھے خواب نہیں آیا تھا  آگے  کھائی ہے!‘‘

’’ خواب!؟؟‘‘وہ چیخ اٹھا،" تمھاری آنکھیں کھلی تھیں۔ تمہیں خود دیکھنا  چاہیے تھا!‘‘

’’مجھے علم نہ تھا تم بلکل سامنے کھڑے ہو ورنہ میں تم سے نہ ٹکراتی!‘‘اس نے جھنجھلا کر وضاحت دی۔ 

’’پھر کیا کرتیں!؟فاصلے پر رک جاتیں؟‘‘رایل  نے تیوری چڑھائی۔

’’نہیں!‘‘رینا کی مٹھیاں بھنچ گئیں۔’’میں تمہیں دھکا دے کر یہاں سے چلی جاتی اور ہرگز ہرگز کسی کو نہ بتاتی  تم یہاں مر کھپ گئے ہو۔‘‘

رایل اسے حیرت بے یقینی سے دیکھتا صدمے میں چلا گیا۔’’تم۔۔تم ایسا کر گزرتیں؟‘‘

’’ ہاں! کیونکہ تم ہرگز اس قابل نہیں ہو کہ تمھاری خاطر اپنی جان خطرے میں ڈالی جائے۔‘‘وہ ایک جھٹکے سے جانے کے لیے مڑ گئی۔

’’کیا تم میری جان بچانے پر پچھتا رہی ہو!؟‘‘ اس کے لب ہلے۔ آنکھوں میں بے یقینی ہی بے یقینی تھی۔


’’ ہاں میں بہت پچھتا رہی ہوں۔مجھے تمہیں چھوڑ دینا چاہیے تھا۔‘‘ نتھنے پھلاتے ہوئے اسنے رک کر غصے سے جواب دیا۔

رایل  صدمے سے چور اسے دیکھ کر رہ گیا۔ اس نے دکھی معصوم سی شکل بنائی اور اپنا رخ گہری کھائی کی طرف کر لیا۔۔

’’اب میں اس حقیقت کے ساتھ ہرگز ہرگز نہیں جی سکتا کہ تم نے میری جان بچائی ہے…‘‘رقت آمیز لہجے میں کہتے ہوئے وہ جانے کے لیے مڑا۔

  رینا نے پہلے تو اس کی اس حرکت کا کوئی خاص نوٹس نہ لیا، لیکن جب اسے گہری کھائی کی جانب بڑھتے دیکھا تو اس کے ہوش اڑ گئے۔

’’ پاگل ہو گئے ہو تم!؟‘‘وہ چلا اٹھی۔

ؔ رایل کنارے سے ذرا  فاصلے پر رک گیا۔پھر مڑ کر اسے  گھورنے لگا، ’’ مجھے پہلے سے شک تھا تم نے میری جان بغیر کسی مطلب کے ہرگز نہیں بچائی۔یاد کرو تم نے کہا تھا، تم میرا خون  پینا چاہو گی۔ میں چوزن ون ہوں۔مجھے کیسے مرنے دے سکتی تھی تم؟ میرا خون پی کر تم نے سدا بہار جو رہنا تھا!ہونہہ!تمہیں کیا لگتا ہے میں اتنا بے وقوف ہوں اتنی سی بات نہیں سمجھ سکتا۔‘‘

رینا گنگ سی اسے دیکھ کر رہ گئی۔بات کو کہاں سے کہاں لے جاتا تھا وہ۔

’’عجیب سائکو انسان ہو۔ تمہیں تو کسی پاگل خانے میں ہونا چاہیے تھا۔‘‘وہ کہے بنا نہ رہ سکی۔’’جانے تمھارے گھر والوں نے تم جیسی مصیبت کو کیسے  آزاد چھوڑ رکھا ہے۔‘‘اس نے جھک کر اپنا بیگ اٹھا لیا۔

’’جیسے تمہیں تمھارے گھر والوں نے چھوڑ رکھا ہے!‘‘وہ ہنسا۔

اسکے جواب پر رینا تلملا کر رہ گئی۔

’’ تمہیں ایک مزے کی بات بتاتا ہوں!‘‘اب وہ واپس اپنی ڈگر پر آ گیا تھا۔

’’تم مرنے لگے تھے!‘‘اس نے رایل کی توجہ گہری کھائی کی جانب مبذول کروانا چاہی۔

’’ بعد میں مر جاؤں گا پہلے تم یہاں تو آو!‘‘اس نے   اشارے سے رینا کو اپنی طرف بلایا۔

’’کہاں!؟؟‘‘ 

’’یہاں!کھائی کنارے پر!‘‘ وہ کبھی جھک کر نیچے گہرائی میں دیکھتا تھا  اور کبھی سامنے۔

’’میں جانتی ہوں تم مجھے کیوں بلا رہے ہو! ‘‘وہ الٹے قدم پیچھے ہٹی۔’’تم مجھے کھائی میں گرانا چاہتے ہو! تمھاری یہ کوشش

کبھی کامیاب نہیں ہو گی!‘‘

’’میں بھلا تمہیں گہری کھائی میں کیوں گرانا چاہوں گا!؟؟’’وہ جھنجھلا اٹھا۔

’’یہ تو تم ہی جانتے ہو گے!‘‘رینا نے گھورا۔

’’تمہیں یقین نہیں آئے گا میں تمہیں کیا دکھانے لگا ہوں، آو تو سہی!‘‘اس نے اصرار کیا۔

’’کچھ بھی کر لو میں وہاں نہیں جاؤں گی!‘‘   سینے پر بازو باندھے رخ پھیر کر کھڑی ہو گئی۔

’’نہیں تو نہ سہی!!‘‘وہ ابھی تک  الجھی ہوئی نگاہوں سے گہری کھائی کی طرف دیکھ رہا تھا۔پھر موبائل نکال کر وہ تصویریں کھینچنے لگا تھا۔

’’ہونہہ ڈرامے باز کہیں کا..‘‘رینا جانے کے لیے مڑی ‘ اگلے ہی لمحے وہ چونک کر رک گئی۔

اس کے تو ذہن سے ہی نکل گیا تھا  وہ رایل کے ساتھ یہاں کیوں آئی تھی۔

نسوانی آواز!! چیخ و پکار!!

اس نے بیگ کی اسٹریپس مضبوطی سے پکڑتے ہوئے گھوم کر چاروں طرف دیکھا۔

بار بار گونجتی آواز اچانک بند کیوں ہو گئی تھی؟! 

’’ہم یہاں آواز کے تعاقب میں آئے تھے، کوئی لڑکی مدد کے لیے چیخ رہی تھی۔‘‘اس نے رایل کو یاد دلایا۔

’’اوہ ہاں یاد آیا!‘‘ وہ موبائل کی سکرین پر انگلی پھیرتے ہوئے اس کی طرف گھوما۔

’’آئے تو آواز کی ہی وجہ سے تھے اور کسی کو بچانے ہی آئے تھے مگر ہمیں ضرورت پڑ گئی۔بڑے  ہیرو بن رہے تھے’تف ہے ہم پر!!‘‘

رینا نے قدم بڑھا دیئے۔۔زیر لب بڑبڑاتے ہوئے رایل بھی اسکے پیچھے تھا۔۔

دفعتا دھیمی دھیمی سسکیوں کی آواز سماعت سے ٹکرائی۔وہ دونوں ٹھٹھک کر رہ گئے۔۔جھاڑیوں کے اس پار کوئی تھا۔۔

رایل نے اسے دیکھا۔۔اور اس نے رایل کو ۔۔۔آنکھوں سے اشارہ کرتے وہ جھاڑیوں کے قریب ہوا۔۔بہت محتاط ہو کر اس نے سامنے دیکھا ۔

درخت کا ایک کٹا ہوا تنا سامنے پڑا تھا۔اس پر ایک لڑکی بیٹھی تھی۔لباس سرخ تھا۔بال گھنگھریالے تھے۔ چہرہ ہاتھوں میں چھپا ہوا تھا۔۔وہ ہچکیوں کے ساتھ بےآواز رو رہی تھی۔۔۔

’’کیا تم نے  مدد کے لیے بلایا!؟‘‘رایل نے آواز دی۔


لڑکی نے چونک کر سر اٹھایا، چیخ مار کر ایک جھٹکے سے اٹھ کھڑی  اور تقریبا بھاگتی ہوئی ان کے پاس آ گئی۔

’’میں۔۔۔۔میں گم ہو گئی تھی،میں راستہ بھٹک گی تھی،مجھے کچھ بھی سمجھ نہیں آ رہا تھا،میں بہت ڈر گئی تھی۔‘‘وہ بلک بلک کر رونے لگی۔

رینا نے اسے بغور دیکھا۔ بیس بائس سال عمر ہو گی۔ گہری سیاہ آنکھیں، گھنگھریالے بال،بھرے بھرے سرخ ہونٹ، اور پھولا ہوا سرخ فراک ۔نفیس ایئرنگز، ہائی ہیلز، لائٹ سا میک اپ۔ اسکی تیاری دیکھ کر لگتا تھا جیسے وہ کسی پارٹی یا فنشن کے لیے تیار ہوئی ہو۔

مگر وہ یہاں کیسے؟؟

’’تم دونوں کا بہت بہت شکریہ!‘‘اس نے اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے تشکر بھری نگاہوں سے دونوں کو دیکھا۔’’میری پکار پر دوڑے چلے آئے، میں تم دونوں کا یہ احسان کبھی نہیں چکا پاؤں گی۔مجھے تو بلکل سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اب میں واپس کیسے جاوں گی!‘‘

’’آخر تم یہاں کیا کرنے آئی تھیں؟‘‘رینا نے چڑ کر پوچھا۔۔۔’’تمہاری وجہ سے ہم دونوں مرتے مرتے…‘‘

’’بچ گئے۔‘‘رایل نے فوراً سے  اس کی بات کاٹی۔’’ہاں ہم بچ گئے!‘‘ ساتھ ہی مسکراہٹ دکھائی۔

’’آئم سوری!‘‘وہ معصومیت سے سر جھکا کر ندامت سے بولی،’’مجھے خود نہیں معلوم میں یہاں کیسے آ گئی تھی!‘‘وہ بہت دکھی اور پریشان لگ رہی تھی۔

’’اٹس اوکے!‘‘رایل نے خوشگوار لہجے میں تسلی دی۔’’ یہ تجربے اچھے ہوتے ہیں مگر اس طرح تب کیا کرو جب تمہیں پورا یقین ہو کہ آس پاس کوئی مدد کرنے والا موجود ہے!‘‘

’’شکریہ!‘‘وہ مسکرائی۔’’باے دا وے میرا نام ماروی ہے۔۔۔‘‘اس نے اپنا تعارف کرایا۔

’’میرا نام رایل ہے اور یہ..‘‘اس نے رینا کی طرف دیکھا جو سرد نگاہوں سے ماروی نامی اس لڑکی کو دیکھ رہی تھی۔۔اور وہ لڑکی منتظر تھی کہ رینا بھی اپنا تعارف کروائے۔

’’چڑیل کا کوئی ایک نام ہو تو وہ بتائے!‘‘رایل بڑبڑایا۔

’’کیا کہا؟‘‘ رینا نے کھا جانے والی نظروں سے اسے دیکھا۔

’’کچھ نہیں!‘‘

ماروی کی آنکھوں میں  اس پل عجیب سی چمک ابھری۔وہ دھیرے سے مسکرا دی تھی۔


رایل جانے کے لیے مڑ گیا۔ وہ دونوں بھی اس کے پیچھے چل پڑیں۔

سفر خاموشی سے طے ہوا۔جب وہ سیڑھیوں کے قریب پہنچے تو ماروی نے دونوں کا ایک بار پھر شکریہ ادا کیا۔پھر تیز تیز  سیڑھیاں چڑھتی نظروں سے اوجھل ہو گئی۔

’’ اب ایک بار تم بھی میرا شکریہ ادا کر دو!‘‘رایل نے اپنا بیک پیک اٹھاتے ہوئے کہا۔

’’کس بات کا شکریہ؟‘‘ رینا نے ابرو اچکائے۔

’’میں تمہیں یہاں تک لایا ہوں، ورنہ تم سارا دن اس جنگل میں گزار دیتیں تمہیں واپسی کا راستہ  نہ ملتا!‘‘ 

وہ رایل کی سنی ان سنی  کیے خاموشی سے سیڑھیاں چڑھنے لگی۔رایل بھی بیک وقت کئی کئی سیڑھیاں پھلانگتا اس سے آگے نکل گیا۔دونوں کے درمیان اب دس بارہ سیڑھیوں کا فاصلہ تھا۔

’’تم بس خاموشی سے میری بات سنو اور جواب دو! اگر  کسی کی دونوں ٹانگیں توڑ دی جائیں  تو وہ کتنے عرصے میں ٹھیک ہو گا؟‘‘رایل فون پر کسی سے پوچھ رہا تھا۔

رینا دنگ رہ گئی۔سر اٹھا کر اس نے  بے یقینی سے رایل کو  دیکھا۔ یعنی کہ اس نے ٹانگیں تڑوانی تھیں مگر حرکتوں سے باز نہیں آنا تھا۔

’’تمھارے منہ میں خاک!بھلا میں کیوں کسی کی ٹانگیں توڑنے لگا؟میں نے کبھی لکڑی نہیں توڑی۔۔۔۔۔ ٹانگیں توڑوں گا؟!تم جانتے ہو  میں بہت شریف انسان ہوں…‘‘وہ مخاطب کی بات سننے کے لیے محض چند لمحوں کے لیے خاموش ہوا۔

’’وہ تو غلطی سے ٹوٹی تھی۔میرا ایسا کوئی ارادہ تو نہ تھا۔اب بس بھی کرو پیچھے ہی پڑ گئے ہو تم تو۔۔۔۔جو پوچھا ہے اس کا جواب دو…‘‘وہ جھنجھلا گیا۔

دوسری طرف سے غالبا ایک اور نقطہ اٹھایا گیا۔

’’جنرل نالج کے لیے پوچھ رہا ہوں!‘‘ اس نے ضبط کر کے کہا۔

دوست نے یقینا کہا ہو گا  وہ ایسے سوال جنرل نالج کے لیے ہرگز  نہیں پوچھ سکتا تبھی رایل کا پارہ چڑھ گیا۔

’’اصل میں میرا ہی دماغ خراب ہے جو میں نے تمہیں فون کیا۔ایسے انسان سے دوستی کا کیا فائدہ جو ڈاکٹر بننے کے خواب تو دیکھتا ہو مگر اپنے اکلوتے دوست کے سوال کا جواب نہ دے سکتا ہو!؟؟ یہاں میری ٹانگیں داؤ پر لگی ہوئی ہیں اور ایک تم ہو کہ۔۔۔۔۔۔‘‘رایل نے موبائل کان سے ہٹا کر سکرین کو گھورا۔

رینا نے بیگ سے پانی کی بوتل نکال کر چند گھونٹ بھرے۔


’’بس کیا کہوں میں تمہیں!دوستی کے نام پر دھبہ ہو تم!لگے رہو!اڑاتے رہو میرا مذاق!‘‘وہ خفا لہجے میں کہتے ہوئے یکایک چپ ہوا۔’’کون آیا ہے؟؟‘‘ رک کر کچھ سنا پھر فورا بول اٹھا۔

’’ اگر تم نے اسے میرے بارے میں کچھ بھی بتایا  تو میں زندگی بھر تم سے بات نہیں کروں گا!‘‘

یہ کہہ کر اس نے کال کاٹ دی۔چند لمحوں تک وہ پتھروں کی ریلنگ پر ہاتھ رکھے کھڑا رہا پھر قدموں کی چاپ سن کر مڑا۔رینا اس سے پانچ قدموں کے فاصلے پر تھکی ہاری چلی آ رہی تھی۔

’’آپ بلاشبہ میری گفتگو سننے کے لیے اتنے مریل قدم اٹھا رہی ہیں!‘‘

’’مجھے فضول لوگوں کی گفتگو سننے کا کوئی شوق نہیں ہے۔‘‘اسکا لہجہ خاصا روکھا تھا۔

رایل نے بھنویں اچکا کر اسے دیکھا۔ رینا بے دلی سے قدم اٹھاتی اس کے قریب سے گزر گئی۔وہ بھی آہستگی قدم اٹھاتا اس کے پیچھے چلنے لگا۔

یکایک ان کے اطراف میں سایہ چھانے لگا۔ایسے جیسے کوئی مہیب چیز سورج اور زمین کے درمیان حائل ہو گئی ہو۔

رینا نے چونک کر سر اٹھایا۔کالی گھٹائیں آسمان پر چھا رہی تھیں۔ سورج بادلوں کی اوٹ میں کہیں چھپ گیا تھا۔بے دھوپ کی پراسرار سی روشنی ہر طرف پھیلی ہوئی تھی۔ہوا بلکل بند تھی اور فضا میں ایسی خاموشی  جیسی طوفان سے پہلے ہوا کرتی ہے۔

رینا نے اپنی رفتار بڑھا لی۔ 

جس لمحے اس نے پارک کے سرسبز گوشے میں قدم رکھتے ہوئے مین گیٹ کا رخ کیا، اسی لمحے طوفان پھٹ گیا۔ فضا کا سکون درہم برہم ہوا۔ مجبوراً  اسے رکنا پڑا۔

تند و تیز ہواؤں کے ساتھ بارش کی نھنی منی بوندیں زمین پر پڑنے لگیں۔ بادلوں سے مسلسل گڑگڑاہٹ جیسی خوفناک  آوازیں آ رہی تھیں۔ بار بار بجلی کوند رہی تھی۔ ہوائیں ہر گزرتے لمحے  تیز ہو  رہی تھیں۔ایسے لگ رہا تھا جیسے کوئی خوفناک شے اطراف میں خوف کا اندھیرا پھیلاتی جا رہی ہو۔

پھر ایک شور سا اٹھا۔۔ چیخ و پکار۔۔۔شور شرابا۔ ۔۔اس نے کئی آوازیں سنیں۔۔ 

دبیز دھند میں بدحواس ہو کر بھاگتے ہوئے لوگ اسے محرک سایوں کی مانند  نظر آئے۔کیا پارک میں لوگ تھے؟؟ اسے سکتہ ہوا۔۔۔کیفے کی تمام بتیاں روشن ہو چکی تھیں۔

’’رک کیوں گئی ہو؟"

رایل کی آواز پر  اس نے چونک کر اسے دیکھا۔ وہ کیفے کی جانب سرپٹ بھاگ گیا تھا۔

اب وہ کم از کم اس موسم میں گھر نہیں جا سکتی تھی۔ چارو نہ چار اسے بھی کیفے کا رخ کرنا پڑا۔ 

رایل کیفے میں  داخل ہو چکا تھا۔ گارڈ دروازہ بند کرنے لگا تھا مگر اس نے بازو نکال کر ، اور پاؤں پھنسا کر اسے ایسا کرنے سے روکا تھا۔۔دوسرے ہی پل رینا دروازے میں تھی۔اسکے  اندر داخل ہوتے ہی دروازہ زور سے بند کر دیا گیا تھا۔۔

                                  ★★★★★★★★           

            ★★★★★★★★


Read Zanzaniya Episodes

👉Episode 01      👉Episode 02      👉Episode 03     👉Episode 04     👉Episode 05   👉Episode 06

Urdu Novel Bank WhatsApp Channel

📚 اردو ناول اپڈیٹس کے لیے ہم سے جڑے رہیں

نئے اردو ناولز، تازہ اقساط اور اپڈیٹس کے لیے اب ویب سائٹ بار بار چیک کرنے کی ضرورت نہیں۔ ہمارا واٹس اپ چینل جوائن کریں اور ہر نئی پوسٹ کا لنک وہیں حاصل کریں۔

Post a Comment (0)
Previous Post Next Post