Zanzaniya novel by Husna Hussain - Episode 06

 

Zanzaniya novel by Husna Hussain - Episode 06


باب:6 آسیل جھیل

رائٹنگ ٹیبل کا لیمپ روشن تھا۔ کمرے کی نیم تاریکی میں لیپ ٹاپ اسکرین کی روشنی اسکے چہرے پر پڑ رہی تھی۔. اس نے سرچ ویب سائٹ پر بیرینڈور کا نام لکھا۔۔ اس شہر کی لمبائی چوڑائی، آبادی، سیاحتی مقامات کی اور خوبصورت جگہوں کی لسٹ اور تصویریں آ گئیں۔ پھر اس نے Rainy nights of byrendore  لکھ کر سرچ کیا۔

بار میں بارش کی راتوں کی خوبصورت تصاویر نظر آنے لگیں۔ نہ کسی conspiracy کا اشارہ دیتا آرٹیکل تھا۔۔ نہ کسی خطرے کے حوالے سے کوئی تنبیہہ تھی۔۔ ہاں البتہ بارش  کے حوالے سے سائن بورڈز ضرور تھے۔ کہ بارش میں باہر نہ نکلا جائے ۔

بتایا گیا تھا بیرینڈور  کی طوفانی بارشیں کافی خطرناک تھیں۔ درخت گر جاتے تھے۔ کئی روڈ ایکسیڈنٹ بھی ہو چکے تھے۔  گزشتہ ایک سال میں قریب قریب سو لوگ انہی طوفانی بارشوں میں موت کا شکار ہوئے تھے۔۔

گہری سانس لے کر اس نے ڈائری اٹھا لی ۔ لیمپ کے نیچے رکھے دوبارہ پڑھنے لگی۔۔ آہستگی سے صفحے پلٹتے ایک ایک لفظ اور جملے کو بغور دیکھنے لگی۔۔ وہ جیسے اب کوئی اشارہ پانے کی کوشش کر رہی تھی۔

اگر بارش کی رات اور اس کے بعد عجیب و غریب واقعات پیش نہ آئے ہوتے تو یقیناً وہ  ڈائری میں لکھی عبارتوں پر غور نہ کر رہی ہوتی مگر اب صورتحال مختلف تھی۔ اسے اپنے اندر سر اٹھاتے سوالات کے تسلی بخش جواب چاہیے تھے۔

چند لمحوں تک عبارتوں کو بغور پڑھنے کے بعد وہ ایک مقام پر ٹھٹھک کر رک گئی۔

ینزا پارک کی جھیل!!! 

’’جھیل کنارے۔۔وہاں جہاں اس نے اشارہ کیا ہے، میں نے اپنا نام لکھ دیا ہے۔‘‘

اس نے تیزی سے لیپ ٹاپ پر ینزا پارک کا نام لکھا۔۔ سبزہ زار ، رستوران اور پہاڑوں کی تصایر اور آرٹیکلز سامنے آ گئے مگر کوئی ایک تصویر بھی کسی جھیل کی نہ تھی۔۔

بہت سے مقامات کا ذکر آنلائن نہیں کیا جاتا۔وہ سوچ میں پڑ گئی۔

کیا  اسے ینزا پارک میں جھیل کنارے  درختوں پر اس لڑکی کا نام مل سکتا ہے جو اس گھر میں مقیم رہی ہے اور جس کی ڈائری اس وقت اس کے ہاتھوں میں موجود ہے!؟ کیا کوئی ایسا ثبوت مل سکتا ہے جس سے واضح ہو ڈائری کی عبارتیں  حقیقت پر

مبنی ہیں اور بارش کی راتیں حقیقتا پراسرار ہی ہیں!؟

ذہن میں ابھرتے ایک خیال نے اس کی سوچ کی نفی کر دی۔

  جانے کتنے لوگوں نے درختوں پر اپنے نام لکھے ہونگے، ان میں وہ ڈائری کی رائٹر کا نام  کیسے تلاش کر پائے گی!؟ 

M.I

اس نے صفحے پلٹ کر ان دو حرفوں کو دیکھا۔۔گہری سوچ میں ڈوبی وہ کسی نتیجے پر پہنچنے کی کوشش کرتی رہی پھر تھک ہار کر سو گئی تھی۔


                     ۔★★★★★★★★


کو دھکیل کر نیچے کسی گہرائیوں میں اترنے کا احساس تھا ۔۔۔ اوپر نیچے۔۔دائیں بائیں۔۔۔۔اور پھر تاریکی میں ایک جھلک تھی۔۔ سنہرے بالوں کی۔۔ اور روشن پھول توڑتے لہو رنگ انگلیوں کی ۔۔۔۔اور پھٹے ہوئے کپڑوں سے نظر آتے دردناک زخموں کی۔۔۔ 

دباؤ گردن پر تھا۔۔ تپش آگ کی تھی۔۔ وہ آگ جو اس کے آس پاس ہر طرف جل رہی تھی۔ اور جس کی زد میں اسے بہت سے لوگ نظر آ رہے تھے۔

دور کہیں وال کلاک کی ٹن ٹن گونجنے لگی۔

لپکتی جھپکتی آگ یکایک سرد پڑ گئی۔۔گردن سے بوجھ ہٹ گیا۔

نیند سے بوجھل آنکھیں لیے وہ اٹھ کر بیٹھ گئی تھی۔ اسکی سانسیں چڑھی ہوئی تھیں۔ پورا وجود پسینے سے شرابور ہو رہا تھا ۔۔ کمرے میں گرمی تھی۔ حبس شدید تھا۔

اس نے اٹھ کر کھڑکیاں کھول دیں۔۔ چوکھاٹ پر ہاتھ رکھے کھلی فضاء میں گہری سانسیں لینا چاہی ۔

اب وہ سنبھل رہی تھی۔ وہ بھیانک خواب کے اثر سے  باہر آ رہی تھی۔ دل شدت سے ایک بار پھر دھڑکا تھا۔۔کہ نگاہیں بھٹکتی ہوئی سڑک کے اس پار درختوں کے جھنڈ میں کہیں جم گئی تھیں۔۔وہاں کوئی کھڑا تھا۔۔ سر اٹھائے۔۔۔ کمرے کی کھڑکیوں کو دیکھتے ،اس پر نگاہ جمائے ہوئے ۔۔۔ وہ سایہ۔۔ وہ لمبا سا۔۔ غیر متحرک سایہ جو اسٹریٹ لائٹس کی روشنی میں بےحد نمایاں ہو رہا تھا۔۔۔عجیب سا خوف اور دہشت رگ و پے میں سرایت کر گئی۔جھٹ سے کھڑکیاں بند کرتے وہ دو قدم پیچھے ہٹ گئی تھی۔ سائے نے حرکت کی تھی۔وہ تاریکی میں گم ہو گیا تھا۔ اور نیچے۔۔۔

بیڈ کے نیچے متحرک سیاہ بال ایک دم سے ساکت ہو کر کاغزی  راکھ کی طرح اڑ گئے تھے۔۔


                        ۔★★★★★★★★


دونوں کو لان میں جا لیا تھا۔ لیزا مردوں کی طرح لان چئیر پر پڑی تھی ۔سر اٹھا کر اسے دیکھنے لگی۔ایما نے ناک بھوں چڑھا کر اسکے چہرے سے نگاہ ہٹا لی۔

" مام تمہیں کہیں جانے نہیں دے رہیں۔ سو تم ہمارا سہارا لے رہی ہو؟ "

" نہیں! میں حقیقتاً ایک آفر کر رہی ہوں! ورنہ انکل نے تو مجھے اجازت دے دی ہے!"

دونوں نے کچھ بےیقینی سے پہلے اسے۔۔ پھر ایک دوسرے کو دیکھا ۔

" تمہیں ایسا کیوں لگا  ہم تمھاری آفر قبول کر لیں گے؟" 

"میں نے ایسا تو نہیں سوچا۔انکار کر دو گے تو اکیلی چلی جاؤں گی!"

لیزا نے چند لمحوں تک اسے دیکھا پھر اٹھ کھڑی ہوئی۔

" کہاں جانا ہے؟ "

"ینزا پارک!!" دونوں نے باری باری ایک دوسرے کی شکل دیکھی ۔چند لمحوں تک کچھ سوچا۔

"کب جانا ہے؟" فیصلہ لیزا کا تھا۔اگر وہ ہاں کہے تو ایما  بھی مان جاتی تھی۔۔۔ 

"ابھی!!"

گھڑی دو بجا رہی تھی۔۔اگر وہ مزید تاخیر کرتے تو میشاء آنٹی کی طرف سے کوئی نہ کوئی پابندی عائد ہو سکتی تھی۔۔دونوں نے جھٹ پٹ تیاری کی اور پندرہ منٹ کے بعد اس کے ساتھ باہر تھیں۔

" کیسے جائیں گے ؟ پیدل یا ٹیکسی ؟؟" لیزا  نے پرس  سنبھالتے ہوئے پوچھا تھا۔ اس سے قبل کے وہ کچھ کہتی ، لیزا نے ہاتھ بڑھا کر ایک ٹیکسی روک لی۔۔ ڈرائیور کو ینزا پارک کا حوالہ دیا تو اس نے ایک ثانیے کے لیے اپنی چھوٹی آنکھوں کو مزید چھوٹا کر کے انہیں دیکھا۔پھر کندھے آچکا دیئے۔

وہ تینوں خوشی خوشی گاڑی میں سوار ہو گئیں۔۔ تقریبا بیس منٹ کی ڈرائیو کے بعد گاڑی ینزا پارک کے بیرونی گیٹ کے سامنے روک دی گئی تھی۔ گاڑی سے اتر کر بیرونی دروازے کو دیکھتے ہی رینا کو شاک لگا۔۔۔

  سنسان سا منظر تھا جو ینزا پارک کے بیرونی گیٹ کے پاس اسے نظر آ رہا تھا۔بیرونی جنگلے نما پر دیواروں پر بےہنگم گھاس اور بیلیں چڑھی ہوئی تھیں۔گیٹ کھلا ہوا تھا۔دن کے اجالے میں بھی عجیب وحشت کا سماں تھا۔ دھوپ جیسے زمین پر نہ پڑتی تھی۔


فضاء کی دھند میں کہیں ٹھہر جاتی تھی۔

لیزا نے کچھ صدمے سے اس پارک کو دیکھا اور پھر رینا کو۔۔۔

" یہ کیسا گھٹیا مذاق ہے۔۔تم ہمیں یہاں لائی ہو؟؟ " 

ایما کو بھی  غصہ چڑھا اتنی سنسان ویران جگہ پر بھلا ان کی آوٹنگ کیسے ہو سکتی تھی۔ اسے   تو سناٹے سے خوف آ رہا تھا۔۔۔

" میں ہی پاگل ہوں!" لیزا نے دانت پیسے۔۔۔

" ٹیکسی۔۔کرایا!!" چھوٹی آنکھوں والے ڈرائیور نے کھڑکی سے گردن باہر نکالی۔۔

" ہم واپس جا رہے ہیں!!" لیزا نے حکم سنایا۔

"واپس کہاں ؟؟" ایما بولی

"راستے میں مال دیکھا تھا؟؟"

"ارے ہاں!! وہاں تو بہت بڑا پلے ایریا بھی تھا!" ایما خوش ہوئی۔۔اور لیزا کے ساتھ واپس گاڑی میں جا بیٹھی۔۔ ان کے برعکس رینا الجھن بھری نگاہوں سے گیٹ کو دیکھے جا رہی تھی۔۔

" تم آ رہی ہو یا نہیں!" 

اس نے سنا۔۔مگر جواب نہیں دیا۔۔مڑ کر ایک بار پھر پارک کی دیواروں کو دیکھنے لگی۔۔جنگلے کے قریب ہو کر اس نے اندر بھی جھانکا۔۔

" میں تو اس وقت بھی حیران ہوا تھا تم لوگ یہاں کیوں آنا چاہتے ہو۔۔۔یہاں تو کوئی نہیں آتا!!" ڈرائیور کی آواز عقب میں گونجی۔

"رینا!!" لیزا نے زچ ہو کر دروازہ کھولا۔۔"تم آ رہی ہو یا نہیں؟؟؟"

"تم لوگ چلو میں آ جاؤں گی!!"

"ٹھیک ہے ۔۔ اب خود ہی ٹیکسی پکڑ کر آ جانا!!" لیزا نے دروازہ زور سے بند کر دیا۔۔ اس نے آواز سنی مگر پھر بھی پلٹ کر نہیں دیکھا۔۔گاڑی روانہ ہو چکی تھی۔اگلے چند لمحوں تک وہ دم سادھے کھڑی رہی پھر بیگ کی اسٹریپس پر گرفت جمائے  نقشے کے پاس رک گئی تھی۔۔اور اسے بغور دیکھنے لگی تھی۔۔ نقشہ پرانا لگتا تھا۔۔کئی جگہوں پر لکیریں اور کٹ کے نشان تھے۔۔کئ حصے دھندلے اور کئی مقامات کے لفظ غیر واضح ہو رہے تھے۔۔ 

ینزا  پارک کے دامن میں  ایک ہی جھیل تھی۔ اس جھیل کا ایک نام تھا۔وہ نام نقشے پر کسی سیاہی مارکر سے کاٹا گیا تھا۔ سیڑھیوں کی نشاندھی کرتیں لکیریں مٹی مٹی سی  تھیں۔چھوٹی پہاڑیوں کا خط دھندلا لگ رہا تھا۔ 

اپنی سوچ میں ڈوبی اس نے سڑک کی دوسری جانب دیکھا۔کھلا وسیع میدان تھا اور بہت سے سیاح چلتے پھرتے نظر آ رہے تھے۔

وہاں ایک ریستوران اور دکانیں بھی تھیں۔خوب گہما گہمی نظر آ رہی تھی۔

"پاگل لیزا! لڑنے سے پہلے  پیچھے تو دیکھ لیتی!" اس نے گہری سانس لی۔ پھر  وہ دروازہ دھکیلتی اندر آ گئی۔ نگاہیں اطراف میں بھٹکتی ہوئی فوارے تک گئیں۔۔ہر طرف ویرانیوں کا راج تھا۔۔۔گھاس پر سے گزرتے ہوئے وہ پتھریلے ٹریک پر چڑھ گئی تھی۔ سانس روک کر اطراف کا جائزہ لیتی اب وہ  آہستگی سے قدم اٹھا رہی تھی۔ 

بائیں جانب  بچوں کا حصہ تھا ۔۔ ہر طرح کے جھولوں سے بھرا ہوا۔۔رستوران مقفل تھا۔۔کھڑکیاں تاریک تھیں۔۔ کیفے ٹیریاز  بند تھے، اسٹالز پر گرد جمی ہوئی تھی بورڈ  پھٹے ہوئے تھے۔کئی تالے زنگ آلود تھے۔۔۔۔۔۔۔

اس ویرانے میں اسے صرف ایک کیفے کھلا نظر آیا۔اسکی دیوار گیر کھڑکیوں سے نوجوان لڑکی سیاہ لبادے پر ایپرن باندھے میز کو کپڑے سے صاف کر رہی تھی۔

بھلا ایسی جگہ پر کیفے کھلا رکھنے کی کیا تک بنتی ہے؟رینا حیران ہوئی۔ممکن ہے لوگ یہاں بھی سیاحت کے لیے آتے رہتے ہوں؟یا پھر اس جھیل کو دیکھنے کے لیے۔۔۔

جھیل کا خیال آتے ہی اسکا ارتکاز ایک دم سے ٹوٹا اور وہ پہاڑیوں کی جانب بڑھ گئی۔گھنے درختوں کے بیچ و بیچ اسے پتھریلی سیڑھیاں نیچے جھنڈ میں غائب ہوتی نظر آئیں۔ پاس ہی تیر کا نشان ترچھا کر کے لگایا گیا تھا۔جھاڑیوں میں زنگ لگا آہنی بورڈ استادہ تھا جس پر مٹے مٹے سے لفظوں میں  آسیل جھیل لکھا تھا۔ رینا کی دھڑکن نام پڑھتے ہی ایک دم سے تیز ہوئی۔

اس کے عقب میں بہت دور  ویڈیو بناتی ایک خاتون چند افراد کے ہمراہ پہاڑیوں سے برآمد ہوئی اور انہیں ہاتھ ہلا کر کچھ بتاتے ہوئے جھیل کی طرف اشارہ کرنے لگی۔  غالباً وہ گائیڈ تھی اور بقیہ افراد اس کے سیاح ۔۔۔جو ٹریک سوٹ میں ملبوس اس مہجور پارک کے نظارے کے لیے آئے تھے۔۔اب وہ خاتون کے پیچھے اسی طرف آنے لگے۔

رینا  راستے سے ہٹ گئی۔

خاتون نے ایک سرسری سی نگاہ اس کے چہرے پر ڈالی۔پھر سیاحوں سمیت سیڑھیاں اتر گئی۔

"میں نے اس کے بارے میں اپنے دوست سے سنا تھا۔اسے جادوائی جھیل بھی کہا جاتا تھا۔۔۔یہ وہی ہے نا!! وہی جس کے۔۔۔۔۔۔۔" وجود اوجھل ہوئے، آوازیں معدوم ہو گئیں۔


شکر ہے وہ یہاں اکیلی نہیں!! اس نے سکھ بھری سانس لی۔پھر جونہی سر اٹھایا تو کیفے کے باہر بوسیدہ رومال ہاتھ میں دبوچے وہی صفائی والی لڑکی کھڑی نظر آئی۔ اسکے تاثرات میں سنجیدگی تھی اور  نگاہوں میں عجیب سی سختی۔۔۔

رینا نظر ہٹا کر  سیڑھیاں اترنے لگی۔ گول گھومتی ہوئی سیڑھیاں درختوں کے جھنڈ میں نیچے کہیں گم ہو رہی تھیں۔ ہر گزرتے لمحے اسے گمان ہوتا وہ بس پہنچنے ہی والی ہے ۔۔۔اور یوں اسے سیڑھیاں اترتے پورے سات منٹ لگ گئے۔

وہ نیچے اتری تو اسے اپنے آس پاس کسی سیاح کی موجودگی کی آثار دکھائی نہ دیئے۔نہ مٹی پر قدموں کے نشان تھے اور نہ ہی کہیں کوئی بیگ یا سامان رکھا ہوا تھا۔۔۔

سامنے طویل القامت درختوں کا سلسلہ تھا۔وہ جھاڑیوں سے راستہ بناتی آگے بڑھی۔اسکے قدموں تلے مٹی سرخ سے سیاہی مائل ہونے لگی۔ کچھ ہی دیر میں ہرے بھرے درختوں کی قطار ختم ہوئی اور سامنے کا منظر اسے ششدر کر گیا۔

دھول سے اٹی بے رنگ زمین،خزاں رصیدہ درخت ،بے ہنگم انداز میں پھیلی ہوئی شاخیں اور وسط میں دائرہ نما سرمئی بقعہ جو کبھی جھیل ہوا کرتا تھا'بہت گہرا اور خوفناک سا لگ رہا تھا۔ نیچے بے شمار پتھر تھے،جھاڑیاں تھیں اور درختوں کے کٹے ہوئے تنے بھی جن پر سبز اکائی اگی ہوئی تھی۔جھیل کا پانی جانے کب سے خشک ہو چکا تھا۔اندر ہر شے پر سیاہ تہہ چڑھی ہوئی تھی۔


اطراف میں درختوں کے مٹے مٹے سے لمبے سائے زمین پر پڑ رہے تھے۔ان کی  شاخیں اپنی بے اعتائی کا ماتم کرتی ماحول پر سوگواریت پھیلا رہی تھیں۔

آسیل جھیل!

بیرینڈور کی خوبصورتی!

مگر  اس کے سامنے  سیاہ مٹی پتھروں  کا ایک بدنما منظر تھا۔ گہرائی خوف کا تاثر پیدا کرتی تھی۔

جھیل کو چاروں طرف  جن درختوں نے گھیر رکھا تھا ان کی حالت بھی کچھ مختلف نہ تھی۔۔ان کے تنے سیاہ ہو چکے تھے۔جڑیں اکھڑ کر زمین سے باہرکو نکلی ہوئیں تھیں اور شاخیں ایسی تھیں جیسے بلائیں اپنے دو سے زائد بازو پھیلائے کھڑی ہوں۔ جھیل کے آس پاس سیاہ مٹی تھی۔ یوں معلوم ہوتا تھا جیسے  یہاں کوئی وبا پھیلی ہو جس نے اپنی لپیٹ میں آنے والی ہر اک  شے کو تباہ کر دیا ہو۔

"اس لڑکی نے ڈائری میں ٹھیک ہی لکھا تھا۔" رینا نے اطراف میں دیکھتے ہوئے سوچا۔

آسیل جھیل کی خوبصورتی کے بعد اس نے جھیل کی بدصورتی کا بھی ذکر کیا تھا۔

’’جھیل زندہ تھی۔۔۔اب مردہ ہوئی۔۔۔۔۔پہلے خوبصورت تھی۔۔۔۔اب بدصورت ہوئی۔۔۔۔‘‘

کسی زمانے یہ جگہ بہت خوبصورت رہی ہو گی مگر اب  یہاں خوف اور وحشت کے سوا کچھ نہ تھا۔ ماضی کی جھلکیاں تو شاید اب درختوں پر بھی نہ ملیں۔

ہاں سیاہ درختوں پر بھلا کیا نظر آ سکتا ہے؟؟

اس نے اک موہوم سی امید کے ساتھ درختوں پر نظر دوڑائی۔ جو مایوس لوٹ آئی۔

کچھ سوچ کر اس نے  بیگ سے ڈائری نکالی۔۔صفحے پلٹے۔۔ ایک سرسری سی نگاہ دوڑاتے اس نے صفحہ نمبر سات کھولا۔۔

اور اگلے ہی پل وہ اپنی جگہ منجمد ہوئی۔۔

جملہ نامکمل تھا۔۔لفظ مٹے ہوئے تھے۔۔۔ اسی اچھی طرح سے یاد تھا یہاں جھیل کے حوالے سے کسی لڑکی سے ملاقات کا ذکر تھا۔ کچھ لمحوں تک حیران و پریشان کھڑی رہی پھر ڈائری ہاتھ میں لیے درخت کی ٹوٹی ہوئی شاخ کو جوتے سے ایک طرف کرتی  قدرے ہموار جگہ پر قدم جما کر رک گئی۔اگلے ہی لمحے وہ پتھر کی طرح ساکت ہو گئی۔

صفحے کی ابتدائی سطور پر جو ایک عبارت لکھی تھی وہ اب  آہستگی سے مٹتی جا رہی تھی۔

اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا۔ وہ  جس رخ کھڑی تھی اسی رخ  بے اختیار آگے بڑھی۔دوسری عبارت بھی مٹ گئی۔ اس کے اندر باہر سناٹا چھا گیا۔ 

خوفزدہ نظروں سے اطراف میں دیکھتے ہوئے وہ رخ بدل کر مخالف سمت قدم اٹھانے لگی۔  اس کے ہر قدم کے ساتھ نئے لفظ ابھرنے لگے، عبارتیں مکمل ہونے لگیں۔ رینا کی آنکھیں پوری کی پوری کھل گئیں۔

’’۔۔۔۔وہاں جہاں اس نے اشارہ کیا ہے،…‘‘وہ جھیل کے کنارے تحیر کے عالم میں چلتی دوسری طرف جا رہی تھی۔

’’میں نے اپنا نام لکھ دیا ہے!۔۔۔‘‘‘ اس کے لب کپکپائے۔

’’..سایا  SAYA)‘‘رینا کو اپنی ریڑھ کی ہڈی میں سرد  لہر  دوڑتی ہوئی محسوس ہوئی۔اس نے رک کر سر اٹھایا۔

وہ ایک اجڑے ہوئے بھیانک درخت کے بلکل قریب کھڑی تھی


جس کا تنا جلا ہوا معلوم ہوتا تھا۔ جڑیں زمین سے نکل کر بے ہنگم انداز میں چارون طرف  پھیلی ہوئی تھیں۔

رینا نے  ڈائری کوبے یقینی سے دیکھا۔کیا لڑکی نے اسی درخت پر اپنا نام لکھا تھا جس کے سامنے وہ اس وقت کھڑی ہے اور جس کے قریب جانے پر ادھوری عبارتیں مکمل ہو گئی ہیں!؟ کیا ایسا ممکن ہے؟

اوہ خدایا! اس  کی آنکھیں بے یقینی سے پھیلتی چلی گئیں۔۔نیچے خالی سطروں پر  بہت سے لفظ ابھر تے چلے گئے تھے۔

’’جانتی ہو  یہاں کون آیا ہے؟میں کس سے ملی ہوں؟؟نہیں تم نہیں جانتی۔تم جان بھی کیسے سکتی ہو ادیرا؟۔۔۔۔۔ہاں! میں اسی سی ملی ہوں…وہ اچانک سے میرے سامنے آ گیا اور میں پچھلی بار کی طرح آج بھی بری طرح سے ڈرگئی۔‘‘

رینا حیران وششدر کھڑی تھی۔اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آ رہا تھا۔عبارت یہیں پر ختم ہو گئی تھی۔ مزید کوئی لفظ ظاہر نہیں ہوا تھا۔

ڈائری بند کر کے وہ صدمے کی سی کیفیت میں خاموشی سے مڑی اور اگلے ہی لمحے کسی سے ٹکراتے ٹکراتے   اسکی  چیخ نکل گئی۔

سنسان فضاء میں ایک دبا دبا سا  قہقہہ بلند ہوا ۔  سینے پر ہاتھ رکھے اس نے کڑھ کر سر اٹھایا۔

بلیک جینز کے ساتھ سفید شرٹ پر گہرے سرخ اور سیاہ  کامبینیشن کے کوٹ میں ملبوس، بیگ پیک کندھے سے لٹکائے،ہیڈ فونز گردن پر ٹھہرائے وہ اسے دیکھ رہا تھا۔کچھ حیرت اور دلچسپی سے۔ آج اس کے سیاہ بال پیشانی پر بےترتیبی سے بکھرے ہوئے تھے۔ 

’’تم کتنی فنی لگتی ہو اس طرح بوکھلاتے ہوئے، چلاتے ہوئے،خوف سے آنکھیں پھیلاتے ہوئے۔حالانکہ تمہیں ’’خوفناک‘‘ لگنا چاہیے!‘‘

’’تم۔۔۔۔۔۔تم میرا پیچھا کر رہے ہو؟‘‘ بہت ضبط کے ساتھ اس نے انتہائی سخت لہجے میں پوچھا تھا 

‘‘تمھارا پیچھا اور میں؟‘‘انگلی سے اپنی طرف اشارہ کر کے اس نے حیرت اور بے یقینی سے رینا کو دیکھا۔’’بھلا میں کیوں کرنے لگا ایسے فضول کام!‘‘اس کے چہرے پر ناگواری در آئی۔’’تم بتاو!!کیا تم میرا پیچھا کر رہی تھیں۔ہاں؟کس نے بھیجا ہے تمہیں میری جاسوسی کے لئے؟ساشا نے؟ایوان نے؟ہاں بولو!آخر تم وہاں کیوں پہنچ جاتی ہو جہاں میں جاتا ہوں؟‘‘

’’ایکسکیوز می!!‘‘وہ تیوریاں چڑھا کر کاٹ کھانے کو دوڑی۔ ’’تم


وہاں آتے ہو جہاں میں جاتی ہوں!"

’’کیا واقعی..؟؟‘‘اس نے  اپنی سبزی مائل آنکھیں پھیلائیں،’’یعنی کہ میں تمھارے پیچھے  آ جاتا ہوں اور مجھے پتہ بھی نہیں چلتا!؟How strange!‘‘

رینا نے لب بھینچ کر اسے سخت نظروں سے گھورا اور ڈائری بیگ میں رکھ لی۔ 

’’ویسے پچھلی بار کی طرح  اس بار بھی تمہیں دیکھتے ہی میرے ذہن میں  پہلا خیال ہی یہی آیا کہ تم انسان نہیں ہو!بھلا انسانوں کا کیا کام ایسی ویران جگہون پر!‘‘

’’اپنے بارے میں کیا خیال ہے؟‘‘رینا کا لہجہ زہر خند ہوا.

’’بہت ہی نیک خیال ہے!کم از کم میں چڑیلوں کی طرح چیختا نہیں ہوں!"‘

رینا نے دانت پر دانت جما لیے۔یعنی چیخنے کا حق صرف چڑیلوں کا ہے؟؟!!

’’ویسے تمھارا نام کیا ہے؟مقاصد کیا ہیں؟کیا تم بھی انسانوں کا خون پیتی ہو؟‘‘اس نے خاصے دوستانہ لہجے  میں پوچھا تھا۔

’’دوسروں کا تو علم نہیں مگر تمھارا ضرور پینا چاہوں گی۔‘‘وہ اسے راستے سے ہٹا کر تنے ہوئے نقوش کے ساتھ آگے بڑھی۔

’’میرا ہی کیوں؟‘‘وہ حیران ہوا۔’’کیا میں ہی وہ Chosen One ہوں جس کا خون پینے سے تم سدا بہار رہو گی؟‘‘

رینا کے اندر ہی اندر غصے کا لاوا ابلنے  لگا۔یہ نوجوان تو اسکا ضبط آزمانے پر تل گیا تھا۔

’’چڑیل صاحبہ! جواب تو دو!‘‘

’’ بکواس بند کرو!‘‘ وہ پلٹ کر غرائی۔’’ہوتے کون ہو تم جو اس قدر بے تکلف ہونے کی کوشش کر رہے ہو!؟‘‘

’’میں کون ہوتا ہوں؟‘‘اس نے حیرت سے رینا کو دیکھا۔’’تم مجھے نہیں جانتی؟!‘‘آواز صدمے سے چور تھی،’’ اوہ میرے خدا! اس دنیا میں ایک ایسی لڑکی موجود ہے جو مجھے نہیں جانتی!‘‘

اس نے رینا کا سکون غارت کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے منہ کھولا اور شروع ہو گیا۔

’’مجھے  رایَل  کہتے ہیں۔اور میں اپنے دادا کے سب سے بڑے بیٹے کے کزن کی، دوسری بیوی کا جو سب سے بڑا بھائی تھا، اس کی جو پہلی منگیتر تھی، ۔۔۔۔۔۔اس کی تیسری اور سب سے چھوٹی بیٹی کے۔۔۔سب سے بڑے بیٹے کی ساس کے ۔۔۔۔سوتیلے بھائی کی بیوی کے بیٹے کی۔۔"

’’اسٹاپ اٹ…‘‘ہاتھ اٹھائے وہ چیخ پڑی۔ ان چند لمحوں میں اس


کا پورا سر گھوم گیا تھا۔ بات کیا ہو رہی تھی؟اس نے کیا کہناتھا؟وہ یہاں کیا کرنے آئی تھی؟ سب کچھ بھول بھال گئی ۔دوسری طرف وہ نوجوان......خدا غارت کرے اسے۔۔اپنی مسکراہٹ دباتا اسے معصومیت سے  دیکھے جا  رہا تھا ۔ ’’تو اس کی جو…. خالہ تھیں۔۔۔۔‘‘

’’ایک لفظ نہیں...‘‘رینا نے انگلی دکھا کر اسے وارن کیا۔

وہ اپنی مسکراہٹ چھپانے میں ناکام ہوتے ہوئے سر جھکا  گیا۔اس کے چہرے کے تاثرات بتا رہے تھے کہ وہ اسے تنگ کر کے کتنی خوشی محسوس کر رہا ہے۔

’’تم ایک انتہائی فضول انسان ہو، اور فری ہونے کی یہ کوشش ترک کر دو ورنہ مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا..‘‘اسے دھمکی دیتی وہ  آگے بڑھ گئی۔

’’ اب میں چڑیل کو چڑیل نہ کہوں تو اور کیا کہوں؟‘‘

وہ ایک جھٹکے سے رک گئی۔ساری برداشت جیسے اب ختم ہو گئی تھی۔ 

’’ٹھیک ہے۔۔ٹھیک ہے میں سمجھ گیا۔۔‘‘ وہ اس کے تاثرات سے کچھ خائف ہوا۔’’اس وقت تم انڈر کور چڑیل ہو۔۔۔تم نہیں چاہتیں کہ کسی کو تمھارے بارے میں کچھ بھی علم۔ ہو۔۔میں اپنا منہ بند رکھوں گا ۔۔آئی پرامس!‘‘

رینا کا  جی تو بہت چاہا کہ اب اسکا منہ نوچ لے مگر پھر ضبط کیے جانے کے لیے مڑ گئی۔ اس نے اپنی رفتار بھی بڑھا لی۔ وہ جلد از جلد یہاں سے چلے جانا چاہتی تھی اور اس نیم پاگل نوجوان کی مزید کوئی بات نہیں سننا چاہتی تھی۔

اس کے برعکس وہ کوٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے مسکراتا ہوا اس کے پیچھے چلا آ رہا تھا۔

’’ویسے تم قصے کہانیاں سن کر یہاں چلی آئی تھیں یا راستہ بھٹک گئی تھیں؟‘‘رینا کے برابر میں چلتے ہوئے اس نے بظاہر سنجیدگی سے پوچھا تھا۔

’’قصے کہانیاں؟‘‘رینا نے چونک کر اس کی طرف دیکھا۔

’’تمہیں نہیں معلوم؟‘‘اس نے حیرت سے بھنویں اچکائیں۔

’’کیا نہیں معلوم؟‘‘وہ اپنا غصہ بھول کراس کی طرف متوجہ ہوئی۔

’’آسیل جھیل کی کہانی!‘‘اس نے کہا۔

’’جھیل کی کہانی؟‘‘وہ متجسس ہوئی۔

’’ہاں اس جھیل نے شادی کی تھی، دس عدد بچے بھی تھے۔‘‘

رینا جو پوری توجہ سے کسی راز کے منکشف ہونے کی منتظر


تھی  سن کر تپ  گئی۔’’تم انتہائی فضول انسان ہو..‘‘

’’بلکل یہی رائے میں تمھارے بارے میں رکھتا ہوں!بہت اتفاق ہے نا ہم میں!‘‘

رینا ڈائری بیگ میں رکھتے ہوئے تیز تیز قدم اٹھانے لگی۔نوجوان نے بھی اسی نسبت سے اپنی رفتار بڑھا لی تھی۔

’’وجہ تو بتاؤ کیوں آئی ہو یہاں؟‘‘

’’تمہیں کیوں بتاؤں!؟تم میرے مامے لگتے ہو؟‘‘ تلخ لہجے میں کہتے ہوئے اس نے سیڑھیوں پر قدم رکھا پھر  کسی خیال کے تحت رک کر پلٹی۔

’’کیا اس جھیل کی کوئی ہسٹری ہے؟‘‘

نوجوان  نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔ ’’تمہیں کیوں بتاؤں میں!؟تم میری مامی لگتی ہو!؟‘‘سخت لہجے میں ہوبہو اس کے انداز میں کہتے ہوئے وہ سیڑھیاں چڑھنے لگا۔ 

رینا کا چہرہ مارے خفت کے  سرخ ہو گیا۔

’’بھاڑ میں جاؤ تم!‘‘ 

’’بھاڑ سے تو نکل رہا ہوں!‘‘سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اس نے گردن موڑ  کر تپایا۔

دفعتاً رینا کی سماعت سے ایک دلدوز نسوانی چیخ ٹکرائی۔ اس نے بے اختیار سر گھما کر آواز کی سمت دیکھا۔   وہ نوجوان بھی  فورا سے نیچے اتر آیا تھا۔

’’میری مدد کرو…خدا کے لیے….کوئی ہے….مجھے بچاو….‘‘

نوجوان نے ایک لمحے کا ضیاع کیے بغیر  اپنا بیگ اتار کر نیچے پھینکا اور تیزی سے جھاڑیوں میں گھس گیا۔چیخ میں ایسا درد تھا کہ چاروناچار وہ بھی اس کے پیچھے لپکی۔ 

وہ لڑکا درختوں اور جھاڑیوں سے راستہ بناتے ہوئےایسے قدم اٹھا رہا  تھا جیسے اسے بخوبی علم ہو کہ کون، کہاں  مصیبت میں پھنسا ہوا ہے۔

آواز قریب سے قریب تر ہوتی جا رہی تھی۔ وہ جو بھی تھی روتے ہوئے مدد کے لیے مسلسل چیخ رہی تھی۔ 

سامنے راستہ صاف ہوا تو رایل نے اپنی رفتار بڑھا دی۔وہ تقریبا بھاگ رہا تھا۔بچاؤ بچاؤ کی صدائیں ہر سمت گونج رہی تھیں۔ وہ بائیں جانب درختوں کے بیچ پردے کی طرح  لٹکی ہوئی سرسبز گھاس سے گزر گیا۔لمبی لمبی گھاس کی پتیوں نے گویا ایک دیوار سی بنا رکھی تھی۔ 

لڑکی یقیناً دوسری طرف تھی ۔ یہ رینا کا اندازہ تھا۔

وہ جھاڑی دار گھاس کو چیرتی ہوئی آگے بڑھی اور کسی سخت


جسم سے ٹکرا گئی۔

اگلے ہی لمحے اسے رایل کی چیخ سنائی دی۔ 

وہ لڑکھڑایا، قدم پھسلے، اور پیچھے کی سمت گرتے گرتے کھائی کے کنارے پر جا رکا۔

رینا نے  دیکھا  سامنے زمین اچانک ختم ہو رہی تھی۔ نیچے گہری کھائی تھی۔

ایک لمحے کو وہ سمجھ نہ پائی کہ رایل نے خود کو سنبھالا کیسے،۔۔۔۔لیکن اگلے لمحے اس نے لپک کر ایک قریبی درخت کی جھکی ہوئی شاخ ایک ہاتھ سے پکڑی، اور دوسرے ہاتھ سے رایل کی کلائی تھام لی۔

رایل اب کھائی کے کنارے سے نیچے لٹکا ہوا تھا ۔ دونوں پیر ہوا میں جھول رہے تھے،

گہری کھائی کی صورت میں موت اس کے سامنے تھی جس نے کچھ لمحوں کے لیے ہی سہی اس کی بولتی بند کر دی تھی۔

بچاؤ، بچاؤ کی صدائیں بھی کہیں گم ہو گئی تھیں۔اب ہر طرف خاموشی تھی۔۔۔اور خاموشی کے سوا کچھ نہیں۔۔۔

رایل آنکھیں پھاڑے، منہ کھولے متوحش سا تھا۔ اب نہ وہ ہل سکتا تھا۔ نہ وہ چیخ سکتا تھا۔ نہ وہ بول سکتا تھا۔

’’امیزنگ!!‘‘سکتہ ٹوٹا تو اس کے لب ہلے۔ رینا  جو پوری جان لگا کر اسے پکڑے ہوئے تھی صدمے میں چلی گئی۔

’’نہیں!نہیں!چھوڑنا مت!چھوڑنا مت!اوہ گاڈ!‘‘وہ مارے بوکھلاہٹ کے چیخ اٹھا۔’’اوپر کھینچو مجھے!فورا سے کھینچو مجھے!‘‘

امیزنگ کا بچہ!!

’’میں نہیں کھینچ سکتی!‘‘ بھاری سانسوں کے بیچ وہ بمشکل بول پائی۔ 

’’میں بھی نہیں مر سکتا! ‘‘جوابا وہ بھی چیخا۔ ’۔ابھی تو میں نے بیرینڈور کی سیر کرنی ہے! زرکاڈ کی چوٹیوں کو سر کرنا ہے۔ساشا سے پیسے لینے ہیں۔فائنل میچ بھی کھیلنا ہے۔مجھے نہیں پتہ بس! میں نے نہیں مرنا!‘‘ وہ موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے ضد پر اتر آیا۔

’’ارے  یہاں تو میری لاش بھی نہیں ملے گی!‘‘

’’تو اب میں کیا کروں؟‘‘ وہ بے بسی سے چلائی۔ 

کچھ پتھر لڑھک گئے۔ دونوں کا خوف سے برا حال  ہو گیا۔

’’ ہمت مت ہارو! ۔۔۔۔کم آن! ۔۔۔۔۔تم مجھے بچا سکتی ہو!‘‘اس کے چہرے کا رنگ فق تھا، اور آواز لرز رہی تھی۔ 

رینا کے ہاتھ سے شاخ پھسلتی جا رہی تھی۔ وہ باوجود کوشش


کے رایل کو اپنی طرف کھینچ نہیں پا رہی تھی۔ 

صورت حال سے گھبرا کر وہ تقریباً رو دینے والی ہو گئی۔ایسا پہلی بار ہوا تھا کہ وہ کسی کو اپنی آنکھوں کے سامنے اس طرح مرتا ہوا دیکھ رہی تھی یا دیکھنے والی تھی۔

شاخ کے پھسلنے سے وہ خود بھی رایل طرف کھنچی چلی جا رہی تھی۔جان بچانے کا واحد حل یہی تھا کہ وہ اسے  چھوڑ دے۔

’’نہیں!‘‘اس نے اپنی آنکھیں بند کر لیں۔وہ ایسا نہیں کر سکتی تھی۔ رایل کی کلائی پر اسکی گرفت مضبوط ہو گئی۔ درخت کی جڑوں میں کہیں جنبش ہوئی۔ اور اسی پل اسے  اپنا وجود گہری کھائی کی طرف بڑھتا محسوس ہوا۔مگر اس نے ہمت نہیں ہاری ۔شاخ پر گرفت مظبوط کرتے ہوئے رایل کو کھینچنے کی آخری کوشش کی۔اگلے ہی لمحے دونوں چیخ اٹھے ۔

رینا کے ہاتھ سے شاخ چھوٹ گئی تھی۔


                           ۔★★★★★★★★



Read Zanzaniya Episodes

👉Episode 01      👉Episode 02      👉Episode 03     👉Episode 04     👉Episode 05

Post a Comment (0)
Previous Post Next Post