دروازہ نمبر ایک سو گیارہ!
کیفے سیاحوں سے بھر گیا تھا۔ہال میں بیٹھنے کی جگہ نہ تھی۔ویٹرز انہیں دوسری منزل پر بھیج رہے تھے۔سیڑھیوں پر بھی رش تھا۔ایک افرا تفری سی مچی ہوئی تھی۔
اس نے خشک لبوں کو تر کرتے ہوئے کھڑکی سے باہر دیکھا۔
چھوٹے چھوٹے پتھر، کنکر اور گھاس کے ذرے شیشے سے ٹکرا رہے تھے۔ باہر بہت تیز آندھی چل رہی تھی۔
موسم تو بلکل ٹھیک تھا پھر یہ طوفان!؟ اسکی آنکھوں میں
اضطراب اترا ، چہرے سے پریشانی ہویدا ہوئی۔
آنکھیں موند کر اس نے دل سے دعا کی طوفان تھم جائے، بارش رک جائے اور موسم ویسا ہو جائے جیسا کچھ دیر قبل تھا تاکہ وہ جلد از جلد گھر پہنچ سکے۔مسٹر بیرک یقینا پریشان ہو رہے ہونگے۔میشاء آنٹی ضرور اس پر غصہ کریں گی۔لیزا اور ایما۔۔۔ جانے وہ اس وقت کہاں ہوں گی؟
معاً ایک خیال بجلی کے کوندے کی طرح اس کے ذہن میں لپکا۔اس نے بیگ کھول کر موبائل کی تلاش میں اندر ہاتھ مارا۔ اگلے ہی لمحے اس کے رنگ فق ہوا۔وہ اپنا موبائل گھر بھول آئی تھی۔
اف!کیا ہو گا اب!؟
بے قراری سے لب کاٹتے ہوئے اس نے مضطرب نگاہوں سے یہاں وہاں دیکھا۔یکایک اسے اپنی بائیں جانب کسی کی موجودگی کا احساس ہوا۔اس نے بے اختیار گردن موڑی۔
ہاتھوں میں موبائل،کانوں میں ہیڈ فونز، چہرے پر مکمل اطمینان، آنکھوں میں سکون۔۔۔ وہ رایل تھا۔رایل ہی ہو سکتا تھا۔ دنیا جہاں سے بے خبر مزے سے سر دھنتے ہوئے وہ سکرین پر انگلی پھیر رہا تھا۔یہاں سب لوگ بوکھلائے ہوئے تھے اور ایک وہ تھا کہ۔۔۔۔۔۔رینا کو اسے پرسکون دیکھ کر غصہ چڑھا۔سر جھٹک کر وہ لوگوں کے ہجوم کو چیرتی ویٹرس کے پاس چلی گئی جو لوگوں کو مشروب پیش کر رہی تھی۔
’’کیا مجھے موبائل مل سکتا ہے؟گھر کال کرنی ہے!‘‘اس نے کہا۔خیال تھا ویٹرس اپنا ہی موبائل پیش کر دے گی مگر اس نے سیڑھیوں کی بائیں جانب اشارہ کیا جہاں اوپن کچن نما جگہ بنی ہوئی تھی۔ کاونٹر پر کچھ لوگ کھڑے تھے۔ تین لڑکیاں مشروب کے ٹرے بنا کر ویٹرز کو دے رہی تھیں۔ وہ ایک نوجوان خاتون کے پاس جا کھڑی ہوئی۔
’’میں تمھاری کیا مدد کر سکتی ہوں؟‘‘ہیڈ ویٹرس نے اسے متوجہ پا کر پوچھا۔
’’مجھے گھر فون کرنا ہے۔‘‘اس نے جواب دیا۔
اس نے اثبات میں سر ہلا کر میز کی بائیں جانب اشارہ کیا۔ دیوار کے پاس کونے میں فون رکھا تھا۔خدا کا شکر تھا کہ وہاں لوگوں کا رش نہ تھا۔بھلا لوگ کیوں فون استعمال کریں گے جبکہ ان کے پاس موبائلز موجود تھے۔اس نے اطمینان سے نمبر ڈائل کیا۔
’’سگنلز کا مسئلہ ہو سکتا ہے،ممکن ہے تمھاری بات نہ ہو سکے۔‘‘لڑکی نے مشروب کا ٹرے ویٹر کی جانب بڑھاتے ہوئے اسے آگاہ کیا۔
...
جواباً دل ہی دل میں دعا کرتے ہوئے وہ فون کی جانب متوجہ ہو گئی ۔ بیلز جا رہی تھیں۔ مگر کوئی فون نہیں اٹھا رہا تھا۔اس نے دوبارہ نمبر ڈائل کیا۔یکایک اسے اپنے عقب میں کسی کی موجودگی کا احساس ہوا۔ اس نے مڑ کر پیچھے دیکھا۔ایک ادھیڑ عمر شخص فون کے انتظار میں بے چینی سے پہلو بدل رہا تھا۔ اس نے رسیور کریڈل پر رکھ کر اسے جگہ دی۔
اس شخص نے نمبر ملا کر رسیور کان سے لگایا پھر کچھ لمحوں کے بعد بڑبڑاتے ہوئے رسیور کریڈل پر رکھ دیا۔
’’فون کام نہیں کر رہا…‘‘اس نے ویٹرس سے مخاطب ہو کر کہا۔
’’صاحب سگنلز کا مسئلہ ہے،موسم خراب ہے۔‘‘لڑکی نے جواب دیا۔
’’ہوں!‘‘وہ اثبات میں سر ہلاتے ہوئے وہاں سے چلا گیا۔
دوسری منزل پر شاید بڑا ہال تھا تبھی سب لوگ جگہ نہ ملنے کی صورت میں اوپر جا رہے تھے۔ اب یہاں لوگوں کا رش پہلے کی نسبت کم ہو گیا تھا۔وہ دھڑکتے دل کے ساتھ دوبارہ فون کے قریب آئی،نمبر ڈائل کرنے کے بعد بیلز سنتے ہوئے سامنے کھڑکی کی طرف دیکھنے لگی۔
چوتھی گھنٹی کے بعد کسی نے فون اٹھا لیا تھا۔
اور وہ صاحب کہہ رہے تھے کہ فون کام نہیں کر رہا!
’’میں رینا ہوں۔مجھے میشاء آنٹی سے بات کرنی ہے!‘‘اس نے تیزی سے کہا۔
دوسری طرف خاموشی چھائی رہی۔
’’ہیلو!‘‘اس نے دوبارہ آواز دی۔ سماعت سے سانسوں کی آواز ٹکرائی۔
’’آنٹی؟!’’اس نے پکارا۔
’’نہیں!‘‘اسے اجنبی مگر بے حد خشک نسوانی آواز سنائی دی۔گھر کا فون اکثر ملازم ہی اٹھاتے تھے۔وہ ان کی آواز پہنچانتی تھی مگر اس کے لیے یہ آواز، یہ لہجہ اجنبی تھا۔
’’کون؟؟کون بات کر رہا ہے؟؟‘‘اس نے پوچھا۔
چند لمحوں تک خاموشی چھائی رہی پھر کسی نے جتا کر اپنا نام بتایا۔
’’سایا!!‘‘
جھٹکے سے رسیور کریڈل پر مارنے کے سے انداز میں رکھتے ہوئے وہ یوں پیچھے ہوئی جیسے اسے بچھو نے کاٹ لیا ہو۔
اور وہ لڑکی اب کسی اور سے کہہ رہی تھی۔’’صاحب فون کام نہیں کر رہا..‘‘
فون کام نہیں کر رہا…!!
..
الٹے قدم پیچھے ہوتے ہوئے کسی سے بری طرح سے ٹکرا گئی۔
’’کیا مصیبت ہے!‘‘ اس نے مڑ کر دیکھا۔۔سامنے رایل کھڑا تھا۔ ایک ہاتھ میں چپس کا پیکٹ تھامے دوسرے ہاتھ میں کین اٹھائے۔۔۔
رینا کے بالوں پر نظر پڑتے ہی اس کی مسکراہٹ اڑنچھو ہوئی۔
اسکی نگاہوں کا ارتکاز۔۔اور چہرے کا تاثر رینا کی دھڑکنیں تھما گیا۔ بے اختیار اس کا داہنا ہاتھ بالوں کی جانب اٹھ گیا۔ بالوں کی لمبائی اب کندھوں تک نہ رہی تھی۔ ایک ہاتھ بڑھ چکی تھی۔
اس نے رایل کو دیکھا۔ اب تو یقیناً وہ اسے انسان نہیں سمجھے گا۔۔
مگر ہوا بس اتنا کہ رایل نے سر جھٹک کر یوں کندھے اچکائے جیسے اسے رینا کے بالوں کے حوالے غلط فہمی ہوئی ہو ۔
’’تو مس چیخ! لگتا ہے تمہیں کسی نے بہت بری طرح سے ڈانٹا ہے۔کہیں غلط نمبر تو ڈائل نہیں کر دیا تھا؟؟‘‘
رینا کواس کے عقب میں دائیں طرف کھڑکی کے پاس ایک خالی میز نظر آ گئی۔
’’کیا تمہیں گھر کا نمبر یاد نہیں ہے!؟‘‘وہ پوچھ رہا تھا۔
رایل کو نظر انداز کیے وہ سپاٹ چہرے کے ساتھ تیز تیز قدم اٹھاتی میز کی جانب بڑھ گئی۔
کرسی کھینچ کر بیٹھتے ہوئے اس نے مونگیائی رنگ کا اونی اسکارف بیگ سے نکال کر کندھوں پر پھیلایا تاکہ بال چھپ جائیں۔
ؔسایا!!!…!اس نے پانی کی بوتل نکال کر چند گھونٹ بھرے۔دل کی دھڑکن تیز تھی۔ہر گزرتے لمحے گھبراہٹ میں اضافہ ہو رہا تھا۔
سایا!!
یکایک کسی نے میز کی دوسری طرف کوئی چیز زور سے پٹخی۔ اس نے ہڑبڑا کر سر اٹھایا۔
رایل کرسی رکھے اس کے سامنے بیٹھ گیا تھا، یوں کہ کرسی کا رخ دوسری طرف تھا اور رایل کا رخ اس کی طرف۔
کرسی کی پشت گاہ پر بازو ٹکاتے ہوئے اس نے کین لبوں سے لگا لیا۔ چپس کا پیکٹ اس نے سامنے میز پر رکھ دیا تھا۔
’’اٹھ جاو یہاں سے!‘‘
’’تمھارے باپ کا کیفے ہے؟‘‘
رینا نے لب بھینچ کر اسے دیکھا۔رایل نے چپس کا پیکٹ کھول کر اس کی طرف بڑھایا۔
’’یہاں سے اٹھ جاو ورنہ میں کسی کو بلا لوں گی!‘‘اس نے دھمکی دی۔
کیفے سیاحوں سے بھر گیا تھا۔ہال میں بیٹھنے کی جگہ نہ تھی۔ویٹرز انہیں دوسری منزل پر بھیج رہے تھے۔سیڑھیوں پر بھی رش تھا۔ایک افرا تفری سی مچی ہوئی تھی۔
اس نے خشک لبوں کو تر کرتے ہوئے کھڑکی سے باہر دیکھا۔
چھوٹے چھوٹے پتھر، کنکر اور گھاس کے ذرے شیشے سے ٹکرا رہے تھے۔ باہر بہت تیز آندھی چل رہی تھی۔
موسم تو بلکل ٹھیک تھا پھر یہ طوفان!؟ اسکی آنکھوں میں
اضطراب اترا ، چہرے سے پریشانی ہویدا ہوئی۔
آنکھیں موند کر اس نے دل سے دعا کی طوفان تھم جائے، بارش رک جائے اور موسم ویسا ہو جائے جیسا کچھ دیر قبل تھا تاکہ وہ جلد از جلد گھر پہنچ سکے۔مسٹر بیرک یقینا پریشان ہو رہے ہونگے۔میشاء آنٹی ضرور اس پر غصہ کریں گی۔لیزا اور ایما۔۔۔ جانے وہ اس وقت کہاں ہوں گی؟
معاً ایک خیال بجلی کے کوندے کی طرح اس کے ذہن میں لپکا۔اس نے بیگ کھول کر موبائل کی تلاش میں اندر ہاتھ مارا۔ اگلے ہی لمحے اس کے رنگ فق ہوا۔وہ اپنا موبائل گھر بھول آئی تھی۔
اف!کیا ہو گا اب!؟
بے قراری سے لب کاٹتے ہوئے اس نے مضطرب نگاہوں سے یہاں وہاں دیکھا۔یکایک اسے اپنی بائیں جانب کسی کی موجودگی کا احساس ہوا۔اس نے بے اختیار گردن موڑی۔
ہاتھوں میں موبائل،کانوں میں ہیڈ فونز، چہرے پر مکمل اطمینان، آنکھوں میں سکون۔۔۔ وہ رایل تھا۔رایل ہی ہو سکتا تھا۔ دنیا جہاں سے بے خبر مزے سے سر دھنتے ہوئے وہ سکرین پر انگلی پھیر رہا تھا۔یہاں سب لوگ بوکھلائے ہوئے تھے اور ایک وہ تھا کہ۔۔۔۔۔۔رینا کو اسے پرسکون دیکھ کر غصہ چڑھا۔سر جھٹک کر وہ لوگوں کے ہجوم کو چیرتی ویٹرس کے پاس چلی گئی جو لوگوں کو مشروب پیش کر رہی تھی۔
’’کیا مجھے موبائل مل سکتا ہے؟گھر کال کرنی ہے!‘‘اس نے کہا۔خیال تھا ویٹرس اپنا ہی موبائل پیش کر دے گی مگر اس نے سیڑھیوں کی بائیں جانب اشارہ کیا جہاں اوپن کچن نما جگہ بنی ہوئی تھی۔ کاونٹر پر کچھ لوگ کھڑے تھے۔ تین لڑکیاں مشروب کے ٹرے بنا کر ویٹرز کو دے رہی تھیں۔ وہ ایک نوجوان خاتون کے پاس جا کھڑی ہوئی۔
’’میں تمھاری کیا مدد کر سکتی ہوں؟‘‘ہیڈ ویٹرس نے اسے متوجہ پا کر پوچھا۔
’’مجھے گھر فون کرنا ہے۔‘‘اس نے جواب دیا۔
اس نے اثبات میں سر ہلا کر میز کی بائیں جانب اشارہ کیا۔ دیوار کے پاس کونے میں فون رکھا تھا۔خدا کا شکر تھا کہ وہاں لوگوں کا رش نہ تھا۔بھلا لوگ کیوں فون استعمال کریں گے جبکہ ان کے پاس موبائلز موجود تھے۔اس نے اطمینان سے نمبر ڈائل کیا۔
’’سگنلز کا مسئلہ ہو سکتا ہے،ممکن ہے تمھاری بات نہ ہو سکے۔‘‘لڑکی نے مشروب کا ٹرے ویٹر کی جانب بڑھاتے ہوئے اسے آگاہ کیا۔
...
جواباً دل ہی دل میں دعا کرتے ہوئے وہ فون کی جانب متوجہ ہو گئی ۔ بیلز جا رہی تھیں۔ مگر کوئی فون نہیں اٹھا رہا تھا۔اس نے دوبارہ نمبر ڈائل کیا۔یکایک اسے اپنے عقب میں کسی کی موجودگی کا احساس ہوا۔ اس نے مڑ کر پیچھے دیکھا۔ایک ادھیڑ عمر شخص فون کے انتظار میں بے چینی سے پہلو بدل رہا تھا۔ اس نے رسیور کریڈل پر رکھ کر اسے جگہ دی۔
اس شخص نے نمبر ملا کر رسیور کان سے لگایا پھر کچھ لمحوں کے بعد بڑبڑاتے ہوئے رسیور کریڈل پر رکھ دیا۔
’’فون کام نہیں کر رہا…‘‘اس نے ویٹرس سے مخاطب ہو کر کہا۔
’’صاحب سگنلز کا مسئلہ ہے،موسم خراب ہے۔‘‘لڑکی نے جواب دیا۔
’’ہوں!‘‘وہ اثبات میں سر ہلاتے ہوئے وہاں سے چلا گیا۔
دوسری منزل پر شاید بڑا ہال تھا تبھی سب لوگ جگہ نہ ملنے کی صورت میں اوپر جا رہے تھے۔ اب یہاں لوگوں کا رش پہلے کی نسبت کم ہو گیا تھا۔وہ دھڑکتے دل کے ساتھ دوبارہ فون کے قریب آئی،نمبر ڈائل کرنے کے بعد بیلز سنتے ہوئے سامنے کھڑکی کی طرف دیکھنے لگی۔
چوتھی گھنٹی کے بعد کسی نے فون اٹھا لیا تھا۔
اور وہ صاحب کہہ رہے تھے کہ فون کام نہیں کر رہا!
’’میں رینا ہوں۔مجھے میشاء آنٹی سے بات کرنی ہے!‘‘اس نے تیزی سے کہا۔
دوسری طرف خاموشی چھائی رہی۔
’’ہیلو!‘‘اس نے دوبارہ آواز دی۔ سماعت سے سانسوں کی آواز ٹکرائی۔
’’آنٹی؟!’’اس نے پکارا۔
’’نہیں!‘‘اسے اجنبی مگر بے حد خشک نسوانی آواز سنائی دی۔گھر کا فون اکثر ملازم ہی اٹھاتے تھے۔وہ ان کی آواز پہنچانتی تھی مگر اس کے لیے یہ آواز، یہ لہجہ اجنبی تھا۔
’’کون؟؟کون بات کر رہا ہے؟؟‘‘اس نے پوچھا۔
چند لمحوں تک خاموشی چھائی رہی پھر کسی نے جتا کر اپنا نام بتایا۔
’’سایا!!‘‘
جھٹکے سے رسیور کریڈل پر مارنے کے سے انداز میں رکھتے ہوئے وہ یوں پیچھے ہوئی جیسے اسے بچھو نے کاٹ لیا ہو۔
اور وہ لڑکی اب کسی اور سے کہہ رہی تھی۔’’صاحب فون کام نہیں کر رہا..‘‘
فون کام نہیں کر رہا…!!
..
الٹے قدم پیچھے ہوتے ہوئے کسی سے بری طرح سے ٹکرا گئی۔
’’کیا مصیبت ہے!‘‘ اس نے مڑ کر دیکھا۔۔سامنے رایل کھڑا تھا۔ ایک ہاتھ میں چپس کا پیکٹ تھامے دوسرے ہاتھ میں کین اٹھائے۔۔۔
رینا کے بالوں پر نظر پڑتے ہی اس کی مسکراہٹ اڑنچھو ہوئی۔
اسکی نگاہوں کا ارتکاز۔۔اور چہرے کا تاثر رینا کی دھڑکنیں تھما گیا۔ بے اختیار اس کا داہنا ہاتھ بالوں کی جانب اٹھ گیا۔ بالوں کی لمبائی اب کندھوں تک نہ رہی تھی۔ ایک ہاتھ بڑھ چکی تھی۔
اس نے رایل کو دیکھا۔ اب تو یقیناً وہ اسے انسان نہیں سمجھے گا۔۔
مگر ہوا بس اتنا کہ رایل نے سر جھٹک کر یوں کندھے اچکائے جیسے اسے رینا کے بالوں کے حوالے غلط فہمی ہوئی ہو ۔
’’تو مس چیخ! لگتا ہے تمہیں کسی نے بہت بری طرح سے ڈانٹا ہے۔کہیں غلط نمبر تو ڈائل نہیں کر دیا تھا؟؟‘‘
رینا کواس کے عقب میں دائیں طرف کھڑکی کے پاس ایک خالی میز نظر آ گئی۔
’’کیا تمہیں گھر کا نمبر یاد نہیں ہے!؟‘‘وہ پوچھ رہا تھا۔
رایل کو نظر انداز کیے وہ سپاٹ چہرے کے ساتھ تیز تیز قدم اٹھاتی میز کی جانب بڑھ گئی۔
کرسی کھینچ کر بیٹھتے ہوئے اس نے مونگیائی رنگ کا اونی اسکارف بیگ سے نکال کر کندھوں پر پھیلایا تاکہ بال چھپ جائیں۔
ؔسایا!!!…!اس نے پانی کی بوتل نکال کر چند گھونٹ بھرے۔دل کی دھڑکن تیز تھی۔ہر گزرتے لمحے گھبراہٹ میں اضافہ ہو رہا تھا۔
سایا!!
یکایک کسی نے میز کی دوسری طرف کوئی چیز زور سے پٹخی۔ اس نے ہڑبڑا کر سر اٹھایا۔
رایل کرسی رکھے اس کے سامنے بیٹھ گیا تھا، یوں کہ کرسی کا رخ دوسری طرف تھا اور رایل کا رخ اس کی طرف۔
کرسی کی پشت گاہ پر بازو ٹکاتے ہوئے اس نے کین لبوں سے لگا لیا۔ چپس کا پیکٹ اس نے سامنے میز پر رکھ دیا تھا۔
’’اٹھ جاو یہاں سے!‘‘
’’تمھارے باپ کا کیفے ہے؟‘‘
رینا نے لب بھینچ کر اسے دیکھا۔رایل نے چپس کا پیکٹ کھول کر اس کی طرف بڑھایا۔
’’یہاں سے اٹھ جاو ورنہ میں کسی کو بلا لوں گی!‘‘اس نے دھمکی دی۔
...
’’بہت شوق سے!‘‘وہ ایک ہاتھ سے کین پکڑے دوسرے ہاتھ سے چپس کھانے لگا۔
’’ ویسے ایک بات بتاؤ! کیا تم ڈریگن ہو جو منہ سے شعلے اگلتی رہتی ہو؟کبھی نرمی سے بھی بول لیا کرو،میں تمیز سے کہی ہوئی بات بھی سن لیتا ہوں! ‘‘
’’ مجھے تو نہیں لگتا۔جو بھوت لاتوں کے ہوں، وہ باتوں سے کہاں ٹلتے ہیں؟ "
’’اپنے متعلق بتا رہی ہو؟؟‘‘وہ محظوظ ہوا۔
’’تمہیں بیان کر رہی ہوں!‘‘رینا چڑ گئی۔
وہ ہنس دیا۔
’’ویسے اگر کوئی غلط فہمی ہے تو دور کر لو، میں جگہ نہ ملنے کی صورت میں یہاں مجبوراً بیٹھا ہوں!"
بھنویں سکیڑے وہ رخ پھیر گئی۔ اسی دوران لاؤڈ اسپیکر سے اعلان ہونے لگا۔ مدھر سی نسوانی آواز چہار سو گونجنے لگی۔
’’مرحبا! ینزا کیفے میں آپ سب کو خوش آمدید! جنہیں رہبر کی مدد کسی راستے کے لیے درکار ہے وہ دروازہ نمبر ایک سو گیارہ پر تشریف لے آئیں!!"
اعلان اتنا عجیب اور پیچیدہ تھا کہ تین بار سننے کے بعد بھی اسے کچھ سمجھ نہ آیا۔ رایل کے تاثرات البتہ اس سے مختلف تھے ۔وہ الجھن میں کم تجسس میں زیادہ پڑ گیا تھا۔ دروازہ نمبر ایک سو گیارہ کی تلاش میں وہ یہاں وہاں نظر دوڑانے لگا تھا۔۔۔
"مرحبا! ینزا کیفے میں خوش آمدید!"
ہال کی بتیاں مزید روشن ہو گئیں۔سیڑھیوں کی بائیں جانب سیاہ رنگ کا بند دروازہ نمایا ہوا جس کے اوپر تین لکیریں لگی تھیں۔
رایل نے قریب سے گزرتی ویٹرس کو روک لیا۔
"یہ اعلان کیسا تھا؟ "
ویٹرس نے اسے تحیر سے دیکھا۔ "کونسا اعلان؟؟"
"جو ابھی ہوا ہے ۔"
"کب ہوا ہے ؟" اسے رایل کی عقل پر شبہ ہوا۔
" دروازہ نمبر ایک سو گیارہ کے متعلق؟؟"
"کیا تم پاگل ہو ؟کونسا دروازہ؟ کیسا اعلان؟"
"وہ دروازہ۔۔۔" رایل نے ضبط کر کے اشارہ کیا. لڑکی نے باقاعدہ گردن موڑ کر اسی جانب دیکھا۔
"پتا نہیں کہاں کہاں سے پاگل اٹھ کر آ جاتے ہیں!"
"خیر سے محترمہ پاگل تو مجھے اس وقت آپ ہی لگ رہی ہیں جسے یہ آٹھ فٹ کا دروازہ بھی نظر نہیں آ رہا!"
’’بہت شوق سے!‘‘وہ ایک ہاتھ سے کین پکڑے دوسرے ہاتھ سے چپس کھانے لگا۔
’’ ویسے ایک بات بتاؤ! کیا تم ڈریگن ہو جو منہ سے شعلے اگلتی رہتی ہو؟کبھی نرمی سے بھی بول لیا کرو،میں تمیز سے کہی ہوئی بات بھی سن لیتا ہوں! ‘‘
’’ مجھے تو نہیں لگتا۔جو بھوت لاتوں کے ہوں، وہ باتوں سے کہاں ٹلتے ہیں؟ "
’’اپنے متعلق بتا رہی ہو؟؟‘‘وہ محظوظ ہوا۔
’’تمہیں بیان کر رہی ہوں!‘‘رینا چڑ گئی۔
وہ ہنس دیا۔
’’ویسے اگر کوئی غلط فہمی ہے تو دور کر لو، میں جگہ نہ ملنے کی صورت میں یہاں مجبوراً بیٹھا ہوں!"
بھنویں سکیڑے وہ رخ پھیر گئی۔ اسی دوران لاؤڈ اسپیکر سے اعلان ہونے لگا۔ مدھر سی نسوانی آواز چہار سو گونجنے لگی۔
’’مرحبا! ینزا کیفے میں آپ سب کو خوش آمدید! جنہیں رہبر کی مدد کسی راستے کے لیے درکار ہے وہ دروازہ نمبر ایک سو گیارہ پر تشریف لے آئیں!!"
اعلان اتنا عجیب اور پیچیدہ تھا کہ تین بار سننے کے بعد بھی اسے کچھ سمجھ نہ آیا۔ رایل کے تاثرات البتہ اس سے مختلف تھے ۔وہ الجھن میں کم تجسس میں زیادہ پڑ گیا تھا۔ دروازہ نمبر ایک سو گیارہ کی تلاش میں وہ یہاں وہاں نظر دوڑانے لگا تھا۔۔۔
"مرحبا! ینزا کیفے میں خوش آمدید!"
ہال کی بتیاں مزید روشن ہو گئیں۔سیڑھیوں کی بائیں جانب سیاہ رنگ کا بند دروازہ نمایا ہوا جس کے اوپر تین لکیریں لگی تھیں۔
رایل نے قریب سے گزرتی ویٹرس کو روک لیا۔
"یہ اعلان کیسا تھا؟ "
ویٹرس نے اسے تحیر سے دیکھا۔ "کونسا اعلان؟؟"
"جو ابھی ہوا ہے ۔"
"کب ہوا ہے ؟" اسے رایل کی عقل پر شبہ ہوا۔
" دروازہ نمبر ایک سو گیارہ کے متعلق؟؟"
"کیا تم پاگل ہو ؟کونسا دروازہ؟ کیسا اعلان؟"
"وہ دروازہ۔۔۔" رایل نے ضبط کر کے اشارہ کیا. لڑکی نے باقاعدہ گردن موڑ کر اسی جانب دیکھا۔
"پتا نہیں کہاں کہاں سے پاگل اٹھ کر آ جاتے ہیں!"
"خیر سے محترمہ پاگل تو مجھے اس وقت آپ ہی لگ رہی ہیں جسے یہ آٹھ فٹ کا دروازہ بھی نظر نہیں آ رہا!"
...
ویٹرس نے اسے گھورا پھر بڑبڑاتی وہاں سے چلی گئی۔رینا نے حیرت سے اسے اور پھر رایل کو دیکھا۔
"یہ چل کیا رہا ہے ؟" وہ اپنی کرسی چھوڑ کر اٹھ گیا۔اور اس پل محظ چند سیکنڈز کے لیے کیفے کا منظر بدلا تھا۔ خون سے لت پت فرش اور دیواریں۔۔چیخ و پکار۔۔۔اور سیاہ وجود۔۔۔ رینا ایک جھٹکے سے اپنی جگہ سے اٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔
"مرحبا ہنزا کیفے میں خوش آمدید!! رہبر کی طرف سے آپ کے لیے پیغام۔۔۔
رہبر مدد کے لیے تیار ہے!!
کیا آپ کو کوئی راہ درکار ہے؟؟"
اعلان دوبارہ ہوا۔ اب کے کچھ لوگ متوجہ ہوئے۔ اپنی جگہوں سے اٹھتے دروازے کی جانب بڑھنے لگے۔ان کے چہروں پر اطمینان تھا ،جیسے وہ جانتے ہوں وہ کہاں جا رہے ہیں۔ دروازہ نمبر ایک سو گیارہ کے آگے ایک لائن سی بننے لگی۔
تقریبا دس سے پندرہ لوگ اپنی جگہ چھوڑ کر اٹھے تھے ،اور جو باقی رہ گئے تھے وہ تمام کے تمام لوازمات سے انصاف کرنے ،اور مشروب پینے میں یوں مصروف تھے گویا انہوں نے کچھ سنا ہی نہ ہو۔
جب قطار مکمل ہوئی تو ایک فربہی خاتون نے انہیں کھڑا دیکھا اور مسکراتے ہوئے اپنی طرف اشارہ کیا۔ وہ اس کے پاس آ گئے۔
"یہ دروازہ کس لیے ہے؟؟ " سوال رایل نے پوچھا تھا۔آنکھوں میں تجسس سما کر پوچھا تھا۔
" تمہیں نہیں معلوم؟" خاتون ایک دم سے حیران ہوئی تھی۔ رایل کا سر نفی میں ہلا تھا۔
"یہ زیر زمین راستوں کا دروازہ ہے!"
"مطلب؟؟" رینا کو خاک سمجھ نہ آئی۔
"مطلب یہ کہ بیرینڈور میں زمین کے اندر راستے بنائے گئے ہیں جو مختلف مقامات تک پہچانے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ بازار اور کیفے بھی ہیں ، رستوران بھی۔۔۔" خاتون خوشگوار معلوم ہوتی تھیں۔ جھٹ سے بتا دیا۔
"رئیلی؟" رایل کی آنکھیں تحیر سے پھیلیں۔
"ہاں!! یہاں کے خراب موسم کی وجہ سے سیاحوں کے لیے یہ سہولت رکھی گئی ہے!" خاتون جواب دے کر سامنے دیکھنے لگیں۔
"تو پھر یہ تمام لوگ؟؟" رینا نے کچھ الجھ کر ہال میں نگاہ دوڑائی ۔
" یہ مقامی ہوں گے نا۔۔ آس پاس کے لوگ۔۔جیسے موسم ٹھیک
...
ہو گا چلے جائیں گے! " جواب دے کر وہ لٹ کو کان کے پیچھے اڑستی سیدھی ہو گئی تھی۔
"کیا آپ پہلے بھی یہاں آ چکی ہیں ؟؟" رایل گھوم کر دوسری طرف آ گیا۔
"کوئی ایک بار؟؟ کئی بار!!" خاتون نے تفاخر سے سر جھٹکا۔ " میں انڈر گراؤنڈ میوزیم کے لیے آتی ہوں۔۔۔اور ینزا بازار کے لیے بھی۔۔۔"
"ینزا بازار!!!!!" رایل کا اشتیاق بڑھ گیا۔ "گاڈ میں کب سے ڈھونڈ رہا ہوں۔ یہ نیچے ہیں؟؟ بازار!! زمین کے اندر۔۔۔۔"
رینا بےیقینی سے خاتون کو دیکھے جا رہی تھی۔
" لگتا ہے پہلی بار آئے ہو ۔تبھی علم نہیں ہے تمہیں!!
رایل جھٹ سےبیگ پیک پشت پر ڈالتا خاتون کے پیچھے کھڑا ہو گیا۔ "بلکل پہلی بار آیا ہوں۔اور بازار کے متعلق میں نے اتنا سنا ہے کہ سوچ لیا تھا لازمی وزٹ کروں گا۔لیکن معلوم نہ تھا کہ یہ تو ہے بھی بیرینڈور کے اندر۔۔۔۔"
خاتون مسکرائی۔ کسی خیال کے تحت رایل نے گردن موڑ کر رینا کو دیکھا۔ پھر ایسے ہی نظروں سے سوال اٹھایا کہ وہ اتنا ہٹ کر کیوں کھڑی ہے۔
"میں نہیں جا رہی!"
"پر کیوں؟"
"تمہیں یہ سب نارمل لگ رہا ہے؟ "
"تم نے سنا نہیں خاتون کیا کہہ رہی ہیں؟"
"سن لیا ہے۔ تبھی کہہ رہی ہوں!،" سرد مہری سے جواب دیتی وہ واپس میز پر جا بیٹھی۔ اپنی جیکٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالتا رایل سیدھا ہو گیا۔
رینا کے اندر بے سکونی سی آ ٹھہری۔ اس کے نزدیک درست فیصلہ یہی تھا کہ وہ بارش رکنے کا انتظار کرے اور پھر ٹیکسی کر کے گھر چلی جائے۔
اسے یوں بیٹھے تھوڑی ہی دیر گزری ہو گی جب رایل واپس آ گیا۔
"سنو "
۔’’ فرمائیے!!‘‘
’’کیا تم نے زیرِ زمین عجائب گھر کے بارے میں سنا ہے؟؟؟‘‘وہ میز پر اپنی ہتھیلیاں جماتے ہوئے جھکا۔
’’تم کیوں پوچھ رہے ہو؟؟؟’’اس نے گھوری دی۔
’’تم پر کتاب لکھنی ہے اس لیے!!‘‘وہ سلگ گیا۔
...
’’دفع ہو جاو!‘‘ اس کے لہجے میں ناگواری در آئی۔اپنا رخ اس نے کھڑکی کی طرف کر لیا۔
"ویسے تمہیں اس وقت کیفے کا ماحول کچھ پراسرار نہیں لگ رہا ؟؟"
رینا نے چونک کر رایل کو دیکھا۔ پھر اطراف میں نگاہ دوڑائی تو اسے کیفے میں موجود ہر شخص مشکوک نظر آنے لگا۔دروازہ نمبر ایک سو گیارہ کو مکمل نظر انداز کرتے ، خاموشی سے کھانا کھاتے ،چائے پیتے اور ٹکٹکی باندھ کر خلا میں گھورتے لوگ۔۔۔۔۔ اسکی ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ دوڑ گئی۔
’’اگر تم مجھے خوفزدہ کرنے آئے ہو تو یہ تمھاری غلط فہمی ہے۔میں کسی سے نہیں ڈرتی!!‘‘شکوک و شبہات کو جھٹک کر اس نے رایل کو جھڑک دیا۔
’’اور یہ بات مجھ سے بہتر کون جانتا ہو گا!‘‘وہ ہنستے ہوئے چلا گیا۔ رینا دانت پیس کر رہ گئی۔
کیا کرے اب وہ ؟؟ جائے یا نہ جائے؟ نچلا لب کاٹتے ہوئے اس نے بیگ کی اسٹرپس پر گرفت بڑھائی۔ بارش جانے کب رکے۔ وہ زمینی راستے سے کم از کم گھر تک تو پہنچ ہی جائے گی؟ وہ سوچوں میں گھری بیٹھی تھی کہ اچانک اسے اپنے چہرے پر نگاہوں کی تپش کا احساس ہوا۔ سر اٹھایا تو سامنے کاؤنٹر ٹیبل کے پاس وہی نوجوان ویٹرس دکھائی دی جو صبح رومال سے میز صاف کر رہی تھی۔ اسکی آنکھوں میں عجیب سی سرخی ٹھہری تھی اور چہرہ سفید لگ رہا تھا۔وہ اس کے پاس آ گئ۔
"تم نے اعلان سنا؟" لبوں کی جنبش میں سخت آواز ابھری۔
رینا کا سر بےاختیار اثبات میں ہلا۔
"تو پھر بیٹھی کیوں ہو ؟؟ جاؤ!!" آخری لفظ میں ایک حکم بھرا تھا۔" نکل جاؤ یہاں سے!!"
رینا کی دھڑکن ایک دم سے تیز ہوئی۔ برابر والی کھڑکی میں باہر کوئی تھا۔ نوجوان لڑکی گردن موڑے دیکھنے لگی۔
"راستہ صرف یہی ہے ، اور کوئی دروازہ نہیں کھلے گا!!" اس نے کہا اور کہہ کر چلی گئی۔رینا کو لگا برابر والی کھڑکی میں باہر کوئی کھڑا ہے۔ آندھیوں کے زد میں بارش کی بوچھاڑ میں بھیگتا وجود۔۔۔۔ جانے کن خدشات کے تحت وہ اپنی جگہ سے اٹھ کر رایل کے پیچھے جا کھڑی ہوئی۔
....
ان کے لیے ۔۔۔
جنہیں اس کی مدد
درکار ہے!!" عقب میں آواز گونج رہی تھی۔ اعلان پھر سے ہو رہا تھا۔باری باری سب قدم اٹھاتے سیڑھیاں اترنے لگے۔رینا سب سے پیچھے تھی۔ سانس روک کر آگے بڑھتے ہوئے اس نے بیگ میں کسی شئے کی موجودگی کی تسلی کی ۔ خاتون اس سے آگے تھیں اور رایل ایک ساتھ کئی کئی سیڑھیاں پھلانگتا غائب ہو چکا تھا۔
سیڑھیاں ایک راہداری میں جا کر ختم ہو جاتی تھیں۔جس کی سیاہ دیواروں پر سنہری نقش و نگار بنے ہوئے تھے اور فرش کا فلور چیک بورڈ کی طرح سیاہ اور سفید کا امتزاج تھا۔ راہداری کے دوسرے سرے پر ایک اور دروازہ تھا۔
رینا منتشر دھڑکنوں کے ساتھ دیوار سے لگ کر کھڑی ہو گئی۔جانے اس لڑکی کی بات مان کر اس نے صحیح کیا تھا یا غلط ۔۔۔؟ وہ اب پریشان ہو رہی تھی۔
راہداری میں کھڑے لوگ مدھم آواز میں گفتگو کر رہے تھے۔شور مکھیوں کی بھنبھناہٹ جیسا تھا۔خواب کا منظر دماغ کی سکرین پر لہرا گیا۔ اس نے فورا سے خیالات کو جھٹک دیا۔
رایل کی نظر اس پر پڑی تو فورا سے اس کے پاس آ گیا۔
’’ہاہا!!ڈر گئی تم!‘‘
’’جی نہیں!‘‘
’’جی ہاں!..‘‘وہ مزے سے بولا۔’’ویسے تمہیں میرا شکریہ ادا کرنا چاہیے۔‘‘
’’اب کس لئے؟‘‘
"اگر میں تمہیں خوفزدہ نہ کرتا تو تم ایسے انوکھے ٹور سے محروم رہ جاتیں!!"
’’میں تمھاری وجہ سے یہاں نہیں آئی۔‘‘سختی سے کہہ کر وہ دوسری طرف دیکھنے لگی۔
برابر سے گزر کر آگے بڑھتے ہوئے ایک نوجوان لڑکی ادھیڑ عمر خاتون سے ٹکرا گئی۔ اس کا بیگ نیچے گر گیا۔کچھ کاغذات ہاتھ میں تھے بکھر گئے۔
"معذرت!! بہت بہت معذرت !!"
رینا نے بےاختیار اسے دیکھا۔ اپنی اشیاء سمیٹتے ، خاتون سے معذرت کرتے وہ لڑکی اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔ اسکے فرنچ بریڈ میں ڈھلے ہوئے لمبے سیاہ بال پشت سے نیچے تک آ رہے تھے۔میکسی نما لباس سیاہ رنگ کا تھا جس کی تنگ آستینوں سے اس کے ہاتھ نظر آ رہے تھے۔ انگلیوں میں دو چار انگوٹھیاں تھیں۔
...
کانوں میں نفیس ایرنگز ۔۔ رنگت صاف تھی۔ نین نقش انتہائی پرکشش۔ اور آنکھیں ۔۔۔ اسکی سرمئی آنکھیں بلیوں جیسی تھیں ۔۔ خوبصورت شبیہہ لیے بڑی بڑی سی۔۔۔ ا۔۔۔۔۔۔ جانے کیوں اس ماحول میں اس لڑکی کا گیٹ اپ اسے انتہائی منفرد لگا۔۔۔
اسکی نظروں کی تپش تھی یا پھر کوئی انہونا احساس کہ اپنی اشیاء سمیٹ کر ایک سائڈ پر ہوتے ہوئے اس لڑکی کی پہلی نظر رینا ابرہیم پر ہی پڑی۔ رینا نے نظر ہٹا لی۔ مگر وہ لڑکی نہ ہٹا سکی۔اسکے چہرے پر الجھن بھرے تاثرات ابھر آئے ۔ آنکھوں میں سوال آ ٹھہرا۔
اس نے بیگ سے کوئی نوٹ بوک نکالی۔ اس کے کئی صفحات پلٹے۔ ایک صفحے کو کئی لمحوں تک تکا۔ اور ایک بار پھر اس نے سر اٹھا کر رینا کو دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں الجھن کی جگہ استعجاب ٹھہرا تھا۔ وہ حیران تھی۔۔
رینا بیگ اسٹرپس پر گرفت جمائے اب سامنے دیکھ رہی تھی۔
’’ راااایل…..!!‘‘ماروی کی آواز سن کر وہ دونوں ہی چونک اٹھے تھے۔وہ سیڑھیاں اتر کر ابھی ابھی راہداری کی داخل ہوئی تھی۔
"شکر ہے تم مل گئے۔ میں کب سے تمہیں ڈھونڈ رہی تھی۔مجھے تمہارا آٹوگراف چاہیے!"
جس خاتون نے انہیں زیر زمین راستوں سے آگاہی دی تھی وہ اپنا پرس سینے سے لگائے ان کے پاس ہی کھڑی تھیں۔
اس نے گلابی رنگ کی ڈائری بیگ سے نکال کر رایل کی جانب بڑھائی۔
’’یہ کس لیے!؟‘‘وہ حیران ہوا تھا۔
’’یہ اس لیے تاکہ تم مجھے ہمیشہ یاد رہو!‘‘ وہ چہک کر بولی۔
’’اوہ اچھا! ‘‘رایل نے ڈائری لے لی۔ جیب سے قلم بھی نکال لیا۔پھر اس نے رینا کو ایسے دیکھا جیسے کہہ رہا ہو میری کیا بات ہے۔رینا کو بھی تاؤ سا آ گیا۔
’’اس کے لیے آؤٹو گراف کی کیا ضرورت ہے!!‘‘اس نے رایل کے ہاتھوں سے ڈائری جھپٹ کر واپس اسے تھمائی۔’’جو آج ہوا اس کے بعد نہ ہم تمہیں بھول پائیں گے اور نہ تم ہمیں!‘‘
بات تو رینا کی درست تھی مگر رایل آٹو گراف دینے کے فل موڈ میں تھا۔ رینا کو خفگی سے گھورتے اس نے ماروی سے ڈائری لے لی۔
’’اپنے کام سے کام رکھو لڑکی!‘‘
’’یہ عادت تمھاری ہے میری نہیں!‘‘رینا نے دانت پر دانت جما لیے۔
رایل نے صفحے پر کچھ لفظ گھسیٹے ، پیغام لکھا۔ اور آخر
...
میں سائن بھی کر دیا۔ ماروی کی آنکھوں کی چمک بڑھ گئی ، مسکراہٹ گہری ہو گئی۔ ڈائری ہاتھ میں لے کر صفحے پر ہاتھ پھیرتے وہ شادئ مرگ کی سی کیفیت میں مبتلا لگتی تھی۔ اس قدر خوش اور پرجوش ۔۔۔۔
" تھینکیو سو مچ!!!" وہ شکریہ ادا کرتی ایک طرف کھڑی ہو گئی۔ نگاہیں صفحے پر جمی ہوئی تھیں۔ ڈائری کا وہ کوئی دو سو بیسواں صفحہ تھا۔ اور ایسے کئی آٹوگراف اس نے بقیہ صفحات پر لے رکھے تھے۔
" میرا نہیں خیال تمہیں اس طرح کسی کو آٹوگراف دینا چاہیے؟ " خاتون جو یہ سب ملاحظہ فرما رہی تھیں بول اٹھیں۔
"کیوں؟؟ "
" بیرینڈور میں لوگ اس طرح کسی کی کتاب یا ڈائری پر کچھ بھی لکھ کر نہیں دے دیتے ۔اپنا نام تو بلکل بھی نہیں!!"
"ایسا کیوں؟؟" رایل نے سوالیہ ابرو اٹھائی۔
خاتون نے محض کندھے اچکا دیئے۔ جیسے اس سوال کا ان کے پاس کوئی جواب نہ ہو۔ "ایک مقامی خاتون نے مجھے روکا تھا۔ "
اسی لمحے دوسرا دروازہ بھی کھل گیا۔
سامنے زیر زمین ایک ہال تھا۔ روشن مگر پراسرار حد تک ویران۔۔۔فرش پر دھند سی پھیلی ہوئی تھی۔ منظر کسی دھویں میں لپٹا تھا۔
کچھ ہی فاصلے پر ریل کی بوگی جیسی گاڑی کھڑی تھی۔ سفید وردی میں ملبوس گائیڈ خاموشی سے ان کا منتظر تھا۔ ڈرائیور اپنی جگہ بیٹھا تھا۔
گائیڈ نے جھکائی کے ساتھ کا دروازہ کھولا۔مسافر باری باری اندر بیٹھنے لگے۔
بوگی میں ایک طرف ڈبل نشستیں تھیں اور دوسری طرف سنگل۔
ماروی دوسری رو کی سیٹ سنبھالتے ہی رایل کی طرف متوجہ ہوئی۔اس سے پہلے کہ وہ اسے اپنے ساتھ بیٹھنے کا کہتی،ایک ادھیڑ عمر خاتون اس کی برابر میں براجمان ہو گئیں۔ اس نے انتہائی غصے کے عالم میں اس خاتون کو دیکھا مگر کہا کچھ نہیں۔
رایل رک کر ڈرائیور سے کوئی بات کرنے لگا۔سوال پر سوال ۔۔۔ اور جواب پر جواب۔۔۔
رینا بوگی میں سوار ہوتے ہی آگے بڑھ گئی۔ لوگ بترتیب نشستوں پر بیٹھ چکے تھے۔
...
آخری دو سیٹیں خالی تھیں۔ رینا وہیں کھڑکی والی سیٹ پر بیٹھ گئی۔ اس نے بیگ گود میں رکھ لیا۔ پیشانی پر بکھرے بالوں کو انگلیوں سے پیچھے کرتے ہوئے اس نے باہر دیکھا۔ نیم تاریکی میں مدھم سی سنہری روشنی پھیلی تھی جس میں پتھروں کی دیواروں پر کھینچی گئی سرخ لکیریں دکھائی دے رہی تھیں۔کہیں کہیں کچھ رنگ بھی تھے ۔۔۔ اور مٹے مٹے سے لفظ بھی۔۔
اس نے گہری سانس بھر کر بوگی میں نگاہ دوڑائی تو اسے رایل جگہ تلاش کرتا نظر آیا۔کچھ ہی دیر بعد وہ اسے اپنی جانب بڑھتا ہوا دکھائی دیا ۔
کیا مصیبت ہے! وہ جھنجھلا سی گئی۔
رایل بڑے آرام سے اس کے برابر میں آ بیٹھا۔ "ویسے آج ہم دونوں کی قسمت کچھ زیادہ خراب نہیں ہے؟ "
رینا نے لب بھینچ کر اپنا رخ کھڑکی کی طرف کر لیا۔
ماروی بار بار مڑ کر انہیں دیکھتی تھی اور بے قراری سے بڑبڑانے لگتی تھی۔
ڈرائور نے ہارن بجا کر اشارہ دیا۔ بوگی حرکت میں آتے ہی لوہے کی پٹری پر آہستگی سے رینگنے لگی۔
"ویسے میں اتنا بھی برا نہیں ہوں ، بس تھوڑا سا زیادہ بول لیتا ہوں!!" اپنا بیگ پیک گود میں رکھے ، زیپ کے ساتھ نقرئی زنجیر کو جوڑتے وہ سنجیدگی سے گویا ہوا۔
"میرے ساتھ فری ہونے کی کوشش مت کرو!"
’’پتہ نہیں تمہیں یہ خوش فہمی کیوں ہے کہ میں تم سے فری ہونے کی کوشش کرتا ہوں۔ حالانکہ اتنی باتیں تو میں کسی بوڑھی عورت سے بھی کر لیا کرتا ہوں!چونٹیوں سے بھی، ہاتھیوں سے بھی، چڑیلوں سے بھی!‘‘
مٹھیاں بھینچ کر رینا نے دانت پر دانت جما لیے۔ اس نے تہیہ کر لیا وہ اس پاگل لڑکے کی کسی بات کا کوئی جواب نہیں دے گی۔
’’سنو!‘‘
وہ سنی ان سنی کیے چپ رہی۔
"اچھا خیر۔۔۔۔تمہارا تو مجھے علم نہیں لیکن یہ میرا پہلا سفر ہونے والا ہے زیر زمین عجائب گھر کا۔۔ ویسے مجھے ینزا بازار کا بھی شوق ہے لیکن۔۔۔۔اف! کتنا مزا آئے گا!!"اب وہ رینا سے کم خود سے زیادہ مخاطب ہوا تھا۔
پھر کچھ یاد آیا تو رینا کو دیکھا۔ " سنو مس نامعلوم!!"
’’کہا نا مجھ سے بات مت کرو!!‘‘
بس یہی آخری بات تھی جو وہ رایل سے کہہ سکی تھی اس کے
...
بعد اس نے بات کرنے کا موقع ہی نہ دیا۔
وہ تین ہفتے قبل ڈوسان(DUSAN) سے آیا تھا۔ بیرینڈور میں وہ کسی ہوٹل میں ٹھہرا ہوا تھا۔اسے سیر سپاٹے اور مستیوں کا بہت شوق تھا۔وہ اپنی نان اسٹاپ زبان کے ذریعے رینا کو ہر وہ بات بتا رہا تھا جو اس کے نزدیک دلچسپی کی حامل ہو سکتی تھی۔
سفر تھا کہ ختم نہیں ہو رہا تھا۔ وقت تھا کہ چیونٹی کی رفتار سے گزر رہا تھا۔اور رایل کی باتیں تھیں کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھیں۔رینا بہت اکتائی ہوئی تھی۔
ویٹرس نے اسے گھورا پھر بڑبڑاتی وہاں سے چلی گئی۔رینا نے حیرت سے اسے اور پھر رایل کو دیکھا۔
"یہ چل کیا رہا ہے ؟" وہ اپنی کرسی چھوڑ کر اٹھ گیا۔اور اس پل محظ چند سیکنڈز کے لیے کیفے کا منظر بدلا تھا۔ خون سے لت پت فرش اور دیواریں۔۔چیخ و پکار۔۔۔اور سیاہ وجود۔۔۔ رینا ایک جھٹکے سے اپنی جگہ سے اٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔
"مرحبا ہنزا کیفے میں خوش آمدید!! رہبر کی طرف سے آپ کے لیے پیغام۔۔۔
رہبر مدد کے لیے تیار ہے!!
کیا آپ کو کوئی راہ درکار ہے؟؟"
اعلان دوبارہ ہوا۔ اب کے کچھ لوگ متوجہ ہوئے۔ اپنی جگہوں سے اٹھتے دروازے کی جانب بڑھنے لگے۔ان کے چہروں پر اطمینان تھا ،جیسے وہ جانتے ہوں وہ کہاں جا رہے ہیں۔ دروازہ نمبر ایک سو گیارہ کے آگے ایک لائن سی بننے لگی۔
تقریبا دس سے پندرہ لوگ اپنی جگہ چھوڑ کر اٹھے تھے ،اور جو باقی رہ گئے تھے وہ تمام کے تمام لوازمات سے انصاف کرنے ،اور مشروب پینے میں یوں مصروف تھے گویا انہوں نے کچھ سنا ہی نہ ہو۔
جب قطار مکمل ہوئی تو ایک فربہی خاتون نے انہیں کھڑا دیکھا اور مسکراتے ہوئے اپنی طرف اشارہ کیا۔ وہ اس کے پاس آ گئے۔
"یہ دروازہ کس لیے ہے؟؟ " سوال رایل نے پوچھا تھا۔آنکھوں میں تجسس سما کر پوچھا تھا۔
" تمہیں نہیں معلوم؟" خاتون ایک دم سے حیران ہوئی تھی۔ رایل کا سر نفی میں ہلا تھا۔
"یہ زیر زمین راستوں کا دروازہ ہے!"
"مطلب؟؟" رینا کو خاک سمجھ نہ آئی۔
"مطلب یہ کہ بیرینڈور میں زمین کے اندر راستے بنائے گئے ہیں جو مختلف مقامات تک پہچانے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ بازار اور کیفے بھی ہیں ، رستوران بھی۔۔۔" خاتون خوشگوار معلوم ہوتی تھیں۔ جھٹ سے بتا دیا۔
"رئیلی؟" رایل کی آنکھیں تحیر سے پھیلیں۔
"ہاں!! یہاں کے خراب موسم کی وجہ سے سیاحوں کے لیے یہ سہولت رکھی گئی ہے!" خاتون جواب دے کر سامنے دیکھنے لگیں۔
"تو پھر یہ تمام لوگ؟؟" رینا نے کچھ الجھ کر ہال میں نگاہ دوڑائی ۔
" یہ مقامی ہوں گے نا۔۔ آس پاس کے لوگ۔۔جیسے موسم ٹھیک
...
ہو گا چلے جائیں گے! " جواب دے کر وہ لٹ کو کان کے پیچھے اڑستی سیدھی ہو گئی تھی۔
"کیا آپ پہلے بھی یہاں آ چکی ہیں ؟؟" رایل گھوم کر دوسری طرف آ گیا۔
"کوئی ایک بار؟؟ کئی بار!!" خاتون نے تفاخر سے سر جھٹکا۔ " میں انڈر گراؤنڈ میوزیم کے لیے آتی ہوں۔۔۔اور ینزا بازار کے لیے بھی۔۔۔"
"ینزا بازار!!!!!" رایل کا اشتیاق بڑھ گیا۔ "گاڈ میں کب سے ڈھونڈ رہا ہوں۔ یہ نیچے ہیں؟؟ بازار!! زمین کے اندر۔۔۔۔"
رینا بےیقینی سے خاتون کو دیکھے جا رہی تھی۔
" لگتا ہے پہلی بار آئے ہو ۔تبھی علم نہیں ہے تمہیں!!
رایل جھٹ سےبیگ پیک پشت پر ڈالتا خاتون کے پیچھے کھڑا ہو گیا۔ "بلکل پہلی بار آیا ہوں۔اور بازار کے متعلق میں نے اتنا سنا ہے کہ سوچ لیا تھا لازمی وزٹ کروں گا۔لیکن معلوم نہ تھا کہ یہ تو ہے بھی بیرینڈور کے اندر۔۔۔۔"
خاتون مسکرائی۔ کسی خیال کے تحت رایل نے گردن موڑ کر رینا کو دیکھا۔ پھر ایسے ہی نظروں سے سوال اٹھایا کہ وہ اتنا ہٹ کر کیوں کھڑی ہے۔
"میں نہیں جا رہی!"
"پر کیوں؟"
"تمہیں یہ سب نارمل لگ رہا ہے؟ "
"تم نے سنا نہیں خاتون کیا کہہ رہی ہیں؟"
"سن لیا ہے۔ تبھی کہہ رہی ہوں!،" سرد مہری سے جواب دیتی وہ واپس میز پر جا بیٹھی۔ اپنی جیکٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالتا رایل سیدھا ہو گیا۔
رینا کے اندر بے سکونی سی آ ٹھہری۔ اس کے نزدیک درست فیصلہ یہی تھا کہ وہ بارش رکنے کا انتظار کرے اور پھر ٹیکسی کر کے گھر چلی جائے۔
اسے یوں بیٹھے تھوڑی ہی دیر گزری ہو گی جب رایل واپس آ گیا۔
"سنو "
۔’’ فرمائیے!!‘‘
’’کیا تم نے زیرِ زمین عجائب گھر کے بارے میں سنا ہے؟؟؟‘‘وہ میز پر اپنی ہتھیلیاں جماتے ہوئے جھکا۔
’’تم کیوں پوچھ رہے ہو؟؟؟’’اس نے گھوری دی۔
’’تم پر کتاب لکھنی ہے اس لیے!!‘‘وہ سلگ گیا۔
...
’’دفع ہو جاو!‘‘ اس کے لہجے میں ناگواری در آئی۔اپنا رخ اس نے کھڑکی کی طرف کر لیا۔
"ویسے تمہیں اس وقت کیفے کا ماحول کچھ پراسرار نہیں لگ رہا ؟؟"
رینا نے چونک کر رایل کو دیکھا۔ پھر اطراف میں نگاہ دوڑائی تو اسے کیفے میں موجود ہر شخص مشکوک نظر آنے لگا۔دروازہ نمبر ایک سو گیارہ کو مکمل نظر انداز کرتے ، خاموشی سے کھانا کھاتے ،چائے پیتے اور ٹکٹکی باندھ کر خلا میں گھورتے لوگ۔۔۔۔۔ اسکی ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ دوڑ گئی۔
’’اگر تم مجھے خوفزدہ کرنے آئے ہو تو یہ تمھاری غلط فہمی ہے۔میں کسی سے نہیں ڈرتی!!‘‘شکوک و شبہات کو جھٹک کر اس نے رایل کو جھڑک دیا۔
’’اور یہ بات مجھ سے بہتر کون جانتا ہو گا!‘‘وہ ہنستے ہوئے چلا گیا۔ رینا دانت پیس کر رہ گئی۔
کیا کرے اب وہ ؟؟ جائے یا نہ جائے؟ نچلا لب کاٹتے ہوئے اس نے بیگ کی اسٹرپس پر گرفت بڑھائی۔ بارش جانے کب رکے۔ وہ زمینی راستے سے کم از کم گھر تک تو پہنچ ہی جائے گی؟ وہ سوچوں میں گھری بیٹھی تھی کہ اچانک اسے اپنے چہرے پر نگاہوں کی تپش کا احساس ہوا۔ سر اٹھایا تو سامنے کاؤنٹر ٹیبل کے پاس وہی نوجوان ویٹرس دکھائی دی جو صبح رومال سے میز صاف کر رہی تھی۔ اسکی آنکھوں میں عجیب سی سرخی ٹھہری تھی اور چہرہ سفید لگ رہا تھا۔وہ اس کے پاس آ گئ۔
"تم نے اعلان سنا؟" لبوں کی جنبش میں سخت آواز ابھری۔
رینا کا سر بےاختیار اثبات میں ہلا۔
"تو پھر بیٹھی کیوں ہو ؟؟ جاؤ!!" آخری لفظ میں ایک حکم بھرا تھا۔" نکل جاؤ یہاں سے!!"
رینا کی دھڑکن ایک دم سے تیز ہوئی۔ برابر والی کھڑکی میں باہر کوئی تھا۔ نوجوان لڑکی گردن موڑے دیکھنے لگی۔
"راستہ صرف یہی ہے ، اور کوئی دروازہ نہیں کھلے گا!!" اس نے کہا اور کہہ کر چلی گئی۔رینا کو لگا برابر والی کھڑکی میں باہر کوئی کھڑا ہے۔ آندھیوں کے زد میں بارش کی بوچھاڑ میں بھیگتا وجود۔۔۔۔ جانے کن خدشات کے تحت وہ اپنی جگہ سے اٹھ کر رایل کے پیچھے جا کھڑی ہوئی۔
....
ان کے لیے ۔۔۔
جنہیں اس کی مدد
درکار ہے!!" عقب میں آواز گونج رہی تھی۔ اعلان پھر سے ہو رہا تھا۔باری باری سب قدم اٹھاتے سیڑھیاں اترنے لگے۔رینا سب سے پیچھے تھی۔ سانس روک کر آگے بڑھتے ہوئے اس نے بیگ میں کسی شئے کی موجودگی کی تسلی کی ۔ خاتون اس سے آگے تھیں اور رایل ایک ساتھ کئی کئی سیڑھیاں پھلانگتا غائب ہو چکا تھا۔
سیڑھیاں ایک راہداری میں جا کر ختم ہو جاتی تھیں۔جس کی سیاہ دیواروں پر سنہری نقش و نگار بنے ہوئے تھے اور فرش کا فلور چیک بورڈ کی طرح سیاہ اور سفید کا امتزاج تھا۔ راہداری کے دوسرے سرے پر ایک اور دروازہ تھا۔
رینا منتشر دھڑکنوں کے ساتھ دیوار سے لگ کر کھڑی ہو گئی۔جانے اس لڑکی کی بات مان کر اس نے صحیح کیا تھا یا غلط ۔۔۔؟ وہ اب پریشان ہو رہی تھی۔
راہداری میں کھڑے لوگ مدھم آواز میں گفتگو کر رہے تھے۔شور مکھیوں کی بھنبھناہٹ جیسا تھا۔خواب کا منظر دماغ کی سکرین پر لہرا گیا۔ اس نے فورا سے خیالات کو جھٹک دیا۔
رایل کی نظر اس پر پڑی تو فورا سے اس کے پاس آ گیا۔
’’ہاہا!!ڈر گئی تم!‘‘
’’جی نہیں!‘‘
’’جی ہاں!..‘‘وہ مزے سے بولا۔’’ویسے تمہیں میرا شکریہ ادا کرنا چاہیے۔‘‘
’’اب کس لئے؟‘‘
"اگر میں تمہیں خوفزدہ نہ کرتا تو تم ایسے انوکھے ٹور سے محروم رہ جاتیں!!"
’’میں تمھاری وجہ سے یہاں نہیں آئی۔‘‘سختی سے کہہ کر وہ دوسری طرف دیکھنے لگی۔
برابر سے گزر کر آگے بڑھتے ہوئے ایک نوجوان لڑکی ادھیڑ عمر خاتون سے ٹکرا گئی۔ اس کا بیگ نیچے گر گیا۔کچھ کاغذات ہاتھ میں تھے بکھر گئے۔
"معذرت!! بہت بہت معذرت !!"
رینا نے بےاختیار اسے دیکھا۔ اپنی اشیاء سمیٹتے ، خاتون سے معذرت کرتے وہ لڑکی اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔ اسکے فرنچ بریڈ میں ڈھلے ہوئے لمبے سیاہ بال پشت سے نیچے تک آ رہے تھے۔میکسی نما لباس سیاہ رنگ کا تھا جس کی تنگ آستینوں سے اس کے ہاتھ نظر آ رہے تھے۔ انگلیوں میں دو چار انگوٹھیاں تھیں۔
...
کانوں میں نفیس ایرنگز ۔۔ رنگت صاف تھی۔ نین نقش انتہائی پرکشش۔ اور آنکھیں ۔۔۔ اسکی سرمئی آنکھیں بلیوں جیسی تھیں ۔۔ خوبصورت شبیہہ لیے بڑی بڑی سی۔۔۔ ا۔۔۔۔۔۔ جانے کیوں اس ماحول میں اس لڑکی کا گیٹ اپ اسے انتہائی منفرد لگا۔۔۔
اسکی نظروں کی تپش تھی یا پھر کوئی انہونا احساس کہ اپنی اشیاء سمیٹ کر ایک سائڈ پر ہوتے ہوئے اس لڑکی کی پہلی نظر رینا ابرہیم پر ہی پڑی۔ رینا نے نظر ہٹا لی۔ مگر وہ لڑکی نہ ہٹا سکی۔اسکے چہرے پر الجھن بھرے تاثرات ابھر آئے ۔ آنکھوں میں سوال آ ٹھہرا۔
اس نے بیگ سے کوئی نوٹ بوک نکالی۔ اس کے کئی صفحات پلٹے۔ ایک صفحے کو کئی لمحوں تک تکا۔ اور ایک بار پھر اس نے سر اٹھا کر رینا کو دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں الجھن کی جگہ استعجاب ٹھہرا تھا۔ وہ حیران تھی۔۔
رینا بیگ اسٹرپس پر گرفت جمائے اب سامنے دیکھ رہی تھی۔
’’ راااایل…..!!‘‘ماروی کی آواز سن کر وہ دونوں ہی چونک اٹھے تھے۔وہ سیڑھیاں اتر کر ابھی ابھی راہداری کی داخل ہوئی تھی۔
"شکر ہے تم مل گئے۔ میں کب سے تمہیں ڈھونڈ رہی تھی۔مجھے تمہارا آٹوگراف چاہیے!"
جس خاتون نے انہیں زیر زمین راستوں سے آگاہی دی تھی وہ اپنا پرس سینے سے لگائے ان کے پاس ہی کھڑی تھیں۔
اس نے گلابی رنگ کی ڈائری بیگ سے نکال کر رایل کی جانب بڑھائی۔
’’یہ کس لیے!؟‘‘وہ حیران ہوا تھا۔
’’یہ اس لیے تاکہ تم مجھے ہمیشہ یاد رہو!‘‘ وہ چہک کر بولی۔
’’اوہ اچھا! ‘‘رایل نے ڈائری لے لی۔ جیب سے قلم بھی نکال لیا۔پھر اس نے رینا کو ایسے دیکھا جیسے کہہ رہا ہو میری کیا بات ہے۔رینا کو بھی تاؤ سا آ گیا۔
’’اس کے لیے آؤٹو گراف کی کیا ضرورت ہے!!‘‘اس نے رایل کے ہاتھوں سے ڈائری جھپٹ کر واپس اسے تھمائی۔’’جو آج ہوا اس کے بعد نہ ہم تمہیں بھول پائیں گے اور نہ تم ہمیں!‘‘
بات تو رینا کی درست تھی مگر رایل آٹو گراف دینے کے فل موڈ میں تھا۔ رینا کو خفگی سے گھورتے اس نے ماروی سے ڈائری لے لی۔
’’اپنے کام سے کام رکھو لڑکی!‘‘
’’یہ عادت تمھاری ہے میری نہیں!‘‘رینا نے دانت پر دانت جما لیے۔
رایل نے صفحے پر کچھ لفظ گھسیٹے ، پیغام لکھا۔ اور آخر
...
میں سائن بھی کر دیا۔ ماروی کی آنکھوں کی چمک بڑھ گئی ، مسکراہٹ گہری ہو گئی۔ ڈائری ہاتھ میں لے کر صفحے پر ہاتھ پھیرتے وہ شادئ مرگ کی سی کیفیت میں مبتلا لگتی تھی۔ اس قدر خوش اور پرجوش ۔۔۔۔
" تھینکیو سو مچ!!!" وہ شکریہ ادا کرتی ایک طرف کھڑی ہو گئی۔ نگاہیں صفحے پر جمی ہوئی تھیں۔ ڈائری کا وہ کوئی دو سو بیسواں صفحہ تھا۔ اور ایسے کئی آٹوگراف اس نے بقیہ صفحات پر لے رکھے تھے۔
" میرا نہیں خیال تمہیں اس طرح کسی کو آٹوگراف دینا چاہیے؟ " خاتون جو یہ سب ملاحظہ فرما رہی تھیں بول اٹھیں۔
"کیوں؟؟ "
" بیرینڈور میں لوگ اس طرح کسی کی کتاب یا ڈائری پر کچھ بھی لکھ کر نہیں دے دیتے ۔اپنا نام تو بلکل بھی نہیں!!"
"ایسا کیوں؟؟" رایل نے سوالیہ ابرو اٹھائی۔
خاتون نے محض کندھے اچکا دیئے۔ جیسے اس سوال کا ان کے پاس کوئی جواب نہ ہو۔ "ایک مقامی خاتون نے مجھے روکا تھا۔ "
اسی لمحے دوسرا دروازہ بھی کھل گیا۔
سامنے زیر زمین ایک ہال تھا۔ روشن مگر پراسرار حد تک ویران۔۔۔فرش پر دھند سی پھیلی ہوئی تھی۔ منظر کسی دھویں میں لپٹا تھا۔
کچھ ہی فاصلے پر ریل کی بوگی جیسی گاڑی کھڑی تھی۔ سفید وردی میں ملبوس گائیڈ خاموشی سے ان کا منتظر تھا۔ ڈرائیور اپنی جگہ بیٹھا تھا۔
گائیڈ نے جھکائی کے ساتھ کا دروازہ کھولا۔مسافر باری باری اندر بیٹھنے لگے۔
بوگی میں ایک طرف ڈبل نشستیں تھیں اور دوسری طرف سنگل۔
ماروی دوسری رو کی سیٹ سنبھالتے ہی رایل کی طرف متوجہ ہوئی۔اس سے پہلے کہ وہ اسے اپنے ساتھ بیٹھنے کا کہتی،ایک ادھیڑ عمر خاتون اس کی برابر میں براجمان ہو گئیں۔ اس نے انتہائی غصے کے عالم میں اس خاتون کو دیکھا مگر کہا کچھ نہیں۔
رایل رک کر ڈرائیور سے کوئی بات کرنے لگا۔سوال پر سوال ۔۔۔ اور جواب پر جواب۔۔۔
رینا بوگی میں سوار ہوتے ہی آگے بڑھ گئی۔ لوگ بترتیب نشستوں پر بیٹھ چکے تھے۔
...
آخری دو سیٹیں خالی تھیں۔ رینا وہیں کھڑکی والی سیٹ پر بیٹھ گئی۔ اس نے بیگ گود میں رکھ لیا۔ پیشانی پر بکھرے بالوں کو انگلیوں سے پیچھے کرتے ہوئے اس نے باہر دیکھا۔ نیم تاریکی میں مدھم سی سنہری روشنی پھیلی تھی جس میں پتھروں کی دیواروں پر کھینچی گئی سرخ لکیریں دکھائی دے رہی تھیں۔کہیں کہیں کچھ رنگ بھی تھے ۔۔۔ اور مٹے مٹے سے لفظ بھی۔۔
اس نے گہری سانس بھر کر بوگی میں نگاہ دوڑائی تو اسے رایل جگہ تلاش کرتا نظر آیا۔کچھ ہی دیر بعد وہ اسے اپنی جانب بڑھتا ہوا دکھائی دیا ۔
کیا مصیبت ہے! وہ جھنجھلا سی گئی۔
رایل بڑے آرام سے اس کے برابر میں آ بیٹھا۔ "ویسے آج ہم دونوں کی قسمت کچھ زیادہ خراب نہیں ہے؟ "
رینا نے لب بھینچ کر اپنا رخ کھڑکی کی طرف کر لیا۔
ماروی بار بار مڑ کر انہیں دیکھتی تھی اور بے قراری سے بڑبڑانے لگتی تھی۔
ڈرائور نے ہارن بجا کر اشارہ دیا۔ بوگی حرکت میں آتے ہی لوہے کی پٹری پر آہستگی سے رینگنے لگی۔
"ویسے میں اتنا بھی برا نہیں ہوں ، بس تھوڑا سا زیادہ بول لیتا ہوں!!" اپنا بیگ پیک گود میں رکھے ، زیپ کے ساتھ نقرئی زنجیر کو جوڑتے وہ سنجیدگی سے گویا ہوا۔
"میرے ساتھ فری ہونے کی کوشش مت کرو!"
’’پتہ نہیں تمہیں یہ خوش فہمی کیوں ہے کہ میں تم سے فری ہونے کی کوشش کرتا ہوں۔ حالانکہ اتنی باتیں تو میں کسی بوڑھی عورت سے بھی کر لیا کرتا ہوں!چونٹیوں سے بھی، ہاتھیوں سے بھی، چڑیلوں سے بھی!‘‘
مٹھیاں بھینچ کر رینا نے دانت پر دانت جما لیے۔ اس نے تہیہ کر لیا وہ اس پاگل لڑکے کی کسی بات کا کوئی جواب نہیں دے گی۔
’’سنو!‘‘
وہ سنی ان سنی کیے چپ رہی۔
"اچھا خیر۔۔۔۔تمہارا تو مجھے علم نہیں لیکن یہ میرا پہلا سفر ہونے والا ہے زیر زمین عجائب گھر کا۔۔ ویسے مجھے ینزا بازار کا بھی شوق ہے لیکن۔۔۔۔اف! کتنا مزا آئے گا!!"اب وہ رینا سے کم خود سے زیادہ مخاطب ہوا تھا۔
پھر کچھ یاد آیا تو رینا کو دیکھا۔ " سنو مس نامعلوم!!"
’’کہا نا مجھ سے بات مت کرو!!‘‘
بس یہی آخری بات تھی جو وہ رایل سے کہہ سکی تھی اس کے
...
بعد اس نے بات کرنے کا موقع ہی نہ دیا۔
وہ تین ہفتے قبل ڈوسان(DUSAN) سے آیا تھا۔ بیرینڈور میں وہ کسی ہوٹل میں ٹھہرا ہوا تھا۔اسے سیر سپاٹے اور مستیوں کا بہت شوق تھا۔وہ اپنی نان اسٹاپ زبان کے ذریعے رینا کو ہر وہ بات بتا رہا تھا جو اس کے نزدیک دلچسپی کی حامل ہو سکتی تھی۔
سفر تھا کہ ختم نہیں ہو رہا تھا۔ وقت تھا کہ چیونٹی کی رفتار سے گزر رہا تھا۔اور رایل کی باتیں تھیں کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھیں۔رینا بہت اکتائی ہوئی تھی۔
Read Zanzaniya Episodes
👉Episode 01 👉Episode 02 👉Episode 03 👉Episode 04 👉Episode 05 👉Episode 06 👉Episode 07
