تو کیا یہ خطرے والی بات نہیں ہو گی ؟“ مومنہ قدرے تشویش سے بولی۔
سرجن ! ہم خطروں میں تو دن رات ہی گھرے رہتے ہیں اور خطرے ڈر کر ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے تو نہیں رہیں گے۔
میں غازی شاہ کے آئیڈے سے متفق کرتا ہوں تو پھر مجھے کیا کرنا ہو گا ؟
مومنہ نے غازی شاہ کو دیکھا جو گیری سوچ میں گم ہو گیا تھا۔ اس کے سوال پر ایک ہنگارا بھرا پھر کاغذ کو سمیٹ کر تہ کرنے لگا جس پر مومنہنے
نقشہ بنایا تھا۔
تمہیں ایک مریض کو بہت اچھی طرح ڈیل کرنا ہوگا۔ اس کے زخموں پر توجہ دینا ہو گی مگر وہ خالص تمہارا مریض ہو گا اور اب یہ تمہاری
صلاحیتوں کی آزمائش ہوگی کہ تم اسے کس طرح دوسرے ڈاکٹرز کی نظروں سے بچا کر کسی قسم کا شک پیدا کئے بغیر علاج کرتی ہو ۔ غازی شاہ کی آنکھوں میں پراسراری جنگ تھی ۔ ایک دو پل مومنہ کو رکھنے کے لئے لگے پھر وہ یکدم ہنس پڑی۔
تھینک یو کمانڈر! انشاء اللہ میں اپنی صلاحیتوں کا استعمال کروں گی مگر مریض کو بھی ذرا تیز قسم کے آلات کی تکلیفیں سہنا ہوں گی۔ حقیقیت
کا رنگ بھرنے کے لئے ۔
اس کی بات پر غازی شاہ اور طلحہ دنوں ہنس پڑے۔