Writer Name: Alishma Nisa - New Writer
"اس ناول کے لکھنے کا سبب نہ تو ذاتی شہرت کی ہوس تھی، نہ ہی داد و تحسین کی آرزو۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ میں نے اس معاشرے کی بُری حالت دیکھی اور خاموش رہ کر اپنا وجدان دبا نہ سکی۔ ہماری اجکل کی نسل صرف پاکستان نہیں بلکہ پورا عالم اسلام جو قوم لوط کی دلدل میں دھنس رہے ہیں، انہیں واپس لانے کی طاقت میرے بس میں نہیں۔
میں تو کیا بہت سے طاقتور اور با اثر لوگ جنہوں نے انہیں روکنے کی کوشش کی انکی حالت آپ سب کے سامنے ہیں۔
میرے ملک کے لوگ خاص طور پر آج کی نسل، وہ عجیب ہو گئی ہے، ایسی کہ انسان حیرت و اندیشے میں مبتلا ہو جائے۔ مرد کو عورت کے روپ میں اور عورت کو عریاں دیکھ کر دل کانپ اٹھتا ہے۔ ایسا برتاؤ تو حتی کفار بھی نہیں کرتے۔
اندر ہی اندر ایک کسک تھی، جو بار بار جگا دیتی تھی۔ وہ کسک، ایک نرم لیکن مستقل آہ تھی، جو کہتی تھی کہ اگر ہم اپنی فکر و شعور کی روشنی نہ جلائیں، اگر ہم اپنے اخلاق و ادب کی پاسداری نہ کریں، تو یہ دلدل ہمیں اپنے ہولناک احاطے میں گھیر لے گا۔ ہر روز میں نے محسوس کیا کہ یہ کسک میری روح کی ایک تہہ پر چبھتی ہے، اور مجھے مجبور کرتی ہے کہ قلم اٹھاؤں اور حقیقت کی تلخی کو الفاظ میں ڈھال دوں۔
یہ ناول، اس کسک کا حاصل ہے، اس درد و اندیشے کا مرہم ہے، جو میں نے دل و دماغ میں محسوس کیا۔ اور شاید یہی سبب ہے کہ میں نے محسوس کیا کہ خاموش رہنا بھی جرم ہے، اور قلم کی طاقت، دل کی آواز کو دنیا تک پہنچانے کا سب سے نرالا ذریعہ ہے۔
ہمارا معاشرہ، جسے کبھی ہم نے اپنی تہذیب، اپنی دین داری اور اپنی اعلیٰ اقدار پر فخر کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کیا تھا، آج ایک ایسے اندھیرے جال میں الجھ گیا ہے جو بظاہر نظر نہیں آتا۔ جیسے ڈارک ویب پر سب کچھ پوشیدہ ہوتا ہے، پردوں کے پیچھے چلتا رہتا ہے، ویسے ہی یہاں بھی ہر ناجائز اور نازیبا روش چھپ کر پنپ رہی ہے۔ یہ سب کچھ دیکھ کر دل پر بوجھ بڑھتا رہا۔
میں نے بارہا اپنے آپ سے کہا کہ یہ میرا کام نہیں،میں کوئی اعلی قسم کی مصنفہ نہیں ہوں،میرے الفاظ میں وہ تاثیر نہیں جو کسی بڑے لکھاری کے لفظوں میں ہوتا ہیں،اس لیے یہ کسی بڑے ادیب، کسی فلسفی یا کسی قلم کار کا کام ہے، جو اپنی زبان کی قوت اور بیان کے زور سے یہ سب منظر کھول سکے۔ مگر پھر دل نے صدا دی کہ اگر تو نے جو دیکھا ہے، جو جھیلا ہے، جو محسوس کیا ہے وہ نہ کہا تو یہ بوجھ عمر بھر تجھے جینے نہ دے گا۔
سو میں نے ہمت باندھی اور یہ تحریر لکھی۔
میری تحریر میں وہ چمک دمک نہیں جو بڑے مصنفین کی سطروں میں جھلکتی ہے۔ میں نہ تو الفاظ کو خوشبو کی طرح بکھیر سکتی ہوں، نہ ہی معانی کو رنگین چوغے پہنا سکتی ہوں۔ میں بس اتنا کر سکتی ہوں کہ جو کرب میرے اندر ہے، اسے سیدھے سادے لفظوں میں کاغذ پر اتار دوں۔
یہ ناول میری واہ واہ کے لیے نہیں ہے۔ یہ ایک پکار ہے، ایک چنگاری ہے، جو شاید کسی ایک دل کو بھی جھنجھوڑ دے تو میری محنت رائیگاں نہ جائے۔ یہ تحریر ان سب کے لیے ہے جن کے ضمیر ابھی بھی جاگے ہیں، جنہیں اس زہر کی بُو آتی ہے جو ہمارے معاشرے میں گھل رہا ہے۔
میں نے اس کہانی کو "ہیملک: ایک میٹھا زہر" کا نام دیا ہے۔ ہیملک ایک ایسا پودا ہے جو بظاہر سرسبز، نرم و نازک اور خوشنما دکھائی دیتا ہے، مگر اس کے اندر ایک مہلک زہر چھپا ہوا ہے۔ انسان اسے ہاتھ لگائے تو شاید فوری اثر نہ ہو، مگر جب وہ اسے کھا لے، تو آہستہ آہستہ اس کے اعصاب ڈھیلے پڑ جاتے ہیں، جسم سن ہو جاتا ہے اور آخرکار وہ سانس نہ لے پانے کے باعث موت کے گلے لگ جاتا ہے۔
ہمارا معاشرہ بھی اسی ہیملک کا شکار ہے۔
یہ زہر ہمیں رنگینیوں اور آزادی کے خوشنما پردوں میں لپیٹ کر دیا جا رہا ہے۔ یہ ہمیں بہلا رہا ہے، میٹھا ذائقہ دے رہا ہے، اور پھر آہستہ آہستہ ہماری روح، ہماری غیرت اور ہماری سوچ کو مفلوج کر رہا ہے۔
میں یہ دعویٰ نہیں کر سکتی کہ میں نے وہ رخ دکھایا ہے جو دکھانا چاہتی تھی۔ یہ یقین بھی نہیں کہ میری یہ آواز بہت دور تک جائے گی۔ مگر ایک بات پر مجھے یقین ہے: میں نے اپنی سی بھرپور کوشش کی ہے۔ جو میں نے محسوس کیا، جو میں نے دیکھا، جو میں نے اپنے دل پر جھیلا ۔ وہی میں نے لکھ دیا۔
یہ کتاب میری نہیں، یہ ہمارے معاشرے کا نوحہ ہے۔ اور اگر یہ نوحہ کسی کے دل تک پہنچ گیا، تو میرا قلم اپنی ذمہ داری ادا کر چکا۔
میں کہانی لکھنے میں اچھی نہیں ہوں، میں زیادہ تر آرٹیکل لکھ لیتی ہوں، لیکن اب کہانی کے ذریعے بات آسانی سے سمجھ آ جائے گی۔ اس لیے میں وہ سب کچھ، جو بیان کرنا چاہتی تھی، کہانی کے ذریعے بتا دیتی ہوں۔
شکریہ!
میں تو کیا بہت سے طاقتور اور با اثر لوگ جنہوں نے انہیں روکنے کی کوشش کی انکی حالت آپ سب کے سامنے ہیں۔
میرے ملک کے لوگ خاص طور پر آج کی نسل، وہ عجیب ہو گئی ہے، ایسی کہ انسان حیرت و اندیشے میں مبتلا ہو جائے۔ مرد کو عورت کے روپ میں اور عورت کو عریاں دیکھ کر دل کانپ اٹھتا ہے۔ ایسا برتاؤ تو حتی کفار بھی نہیں کرتے۔
اندر ہی اندر ایک کسک تھی، جو بار بار جگا دیتی تھی۔ وہ کسک، ایک نرم لیکن مستقل آہ تھی، جو کہتی تھی کہ اگر ہم اپنی فکر و شعور کی روشنی نہ جلائیں، اگر ہم اپنے اخلاق و ادب کی پاسداری نہ کریں، تو یہ دلدل ہمیں اپنے ہولناک احاطے میں گھیر لے گا۔ ہر روز میں نے محسوس کیا کہ یہ کسک میری روح کی ایک تہہ پر چبھتی ہے، اور مجھے مجبور کرتی ہے کہ قلم اٹھاؤں اور حقیقت کی تلخی کو الفاظ میں ڈھال دوں۔
یہ ناول، اس کسک کا حاصل ہے، اس درد و اندیشے کا مرہم ہے، جو میں نے دل و دماغ میں محسوس کیا۔ اور شاید یہی سبب ہے کہ میں نے محسوس کیا کہ خاموش رہنا بھی جرم ہے، اور قلم کی طاقت، دل کی آواز کو دنیا تک پہنچانے کا سب سے نرالا ذریعہ ہے۔
ہمارا معاشرہ، جسے کبھی ہم نے اپنی تہذیب، اپنی دین داری اور اپنی اعلیٰ اقدار پر فخر کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کیا تھا، آج ایک ایسے اندھیرے جال میں الجھ گیا ہے جو بظاہر نظر نہیں آتا۔ جیسے ڈارک ویب پر سب کچھ پوشیدہ ہوتا ہے، پردوں کے پیچھے چلتا رہتا ہے، ویسے ہی یہاں بھی ہر ناجائز اور نازیبا روش چھپ کر پنپ رہی ہے۔ یہ سب کچھ دیکھ کر دل پر بوجھ بڑھتا رہا۔
میں نے بارہا اپنے آپ سے کہا کہ یہ میرا کام نہیں،میں کوئی اعلی قسم کی مصنفہ نہیں ہوں،میرے الفاظ میں وہ تاثیر نہیں جو کسی بڑے لکھاری کے لفظوں میں ہوتا ہیں،اس لیے یہ کسی بڑے ادیب، کسی فلسفی یا کسی قلم کار کا کام ہے، جو اپنی زبان کی قوت اور بیان کے زور سے یہ سب منظر کھول سکے۔ مگر پھر دل نے صدا دی کہ اگر تو نے جو دیکھا ہے، جو جھیلا ہے، جو محسوس کیا ہے وہ نہ کہا تو یہ بوجھ عمر بھر تجھے جینے نہ دے گا۔
سو میں نے ہمت باندھی اور یہ تحریر لکھی۔
میری تحریر میں وہ چمک دمک نہیں جو بڑے مصنفین کی سطروں میں جھلکتی ہے۔ میں نہ تو الفاظ کو خوشبو کی طرح بکھیر سکتی ہوں، نہ ہی معانی کو رنگین چوغے پہنا سکتی ہوں۔ میں بس اتنا کر سکتی ہوں کہ جو کرب میرے اندر ہے، اسے سیدھے سادے لفظوں میں کاغذ پر اتار دوں۔
یہ ناول میری واہ واہ کے لیے نہیں ہے۔ یہ ایک پکار ہے، ایک چنگاری ہے، جو شاید کسی ایک دل کو بھی جھنجھوڑ دے تو میری محنت رائیگاں نہ جائے۔ یہ تحریر ان سب کے لیے ہے جن کے ضمیر ابھی بھی جاگے ہیں، جنہیں اس زہر کی بُو آتی ہے جو ہمارے معاشرے میں گھل رہا ہے۔
میں نے اس کہانی کو "ہیملک: ایک میٹھا زہر" کا نام دیا ہے۔ ہیملک ایک ایسا پودا ہے جو بظاہر سرسبز، نرم و نازک اور خوشنما دکھائی دیتا ہے، مگر اس کے اندر ایک مہلک زہر چھپا ہوا ہے۔ انسان اسے ہاتھ لگائے تو شاید فوری اثر نہ ہو، مگر جب وہ اسے کھا لے، تو آہستہ آہستہ اس کے اعصاب ڈھیلے پڑ جاتے ہیں، جسم سن ہو جاتا ہے اور آخرکار وہ سانس نہ لے پانے کے باعث موت کے گلے لگ جاتا ہے۔
ہمارا معاشرہ بھی اسی ہیملک کا شکار ہے۔
یہ زہر ہمیں رنگینیوں اور آزادی کے خوشنما پردوں میں لپیٹ کر دیا جا رہا ہے۔ یہ ہمیں بہلا رہا ہے، میٹھا ذائقہ دے رہا ہے، اور پھر آہستہ آہستہ ہماری روح، ہماری غیرت اور ہماری سوچ کو مفلوج کر رہا ہے۔
میں یہ دعویٰ نہیں کر سکتی کہ میں نے وہ رخ دکھایا ہے جو دکھانا چاہتی تھی۔ یہ یقین بھی نہیں کہ میری یہ آواز بہت دور تک جائے گی۔ مگر ایک بات پر مجھے یقین ہے: میں نے اپنی سی بھرپور کوشش کی ہے۔ جو میں نے محسوس کیا، جو میں نے دیکھا، جو میں نے اپنے دل پر جھیلا ۔ وہی میں نے لکھ دیا۔
یہ کتاب میری نہیں، یہ ہمارے معاشرے کا نوحہ ہے۔ اور اگر یہ نوحہ کسی کے دل تک پہنچ گیا، تو میرا قلم اپنی ذمہ داری ادا کر چکا۔
میں کہانی لکھنے میں اچھی نہیں ہوں، میں زیادہ تر آرٹیکل لکھ لیتی ہوں، لیکن اب کہانی کے ذریعے بات آسانی سے سمجھ آ جائے گی۔ اس لیے میں وہ سب کچھ، جو بیان کرنا چاہتی تھی، کہانی کے ذریعے بتا دیتی ہوں۔
شکریہ!
People also Read: