Kesa laga Mera mazak? by Huda

 

urdu novel cover of Kesa laga Mera mazak  by Huda

Kesa laga Mera mazak? کیسا لگا میرا مذاق ؟
Writer name: ہدیٰ ، Huda
Status : complete
Description:
یہ کہانی ان لوگوں کے لیے ہے جنہوں نے مذاق کو بھی مذاق بنا لیا ہے۔کسی کی دل آزاری کر کے صرف یہ کہہ دینا کہ میں نے تو مذاق کیا تھا۔

Download  in Pdf 
OR

Read Online

وہ آج کچھ ڈیپریسڈ لگ رہا تھا۔ساری رات اس نے جاگ کر گزاری تھی ۔ایک لمحہ بھی سکون کا اسے نصیب نہیں ہوا۔وہ ایک ایک سیکنڈ گن گن کر صبح کا انتظار کر رہا تھا ۔فجر کی نماز ادا کرنے کے بعد وہ سیدھا پارک آیا تھا۔ کل والے واقعے کے بارے میں سوچ سوچ کر وہ ابھی تک ڈپریشن کا شکار تھا۔ یہ بات سچ تھی کہ وہ بہت حساس تھا لیکن اکثر وہ اپنے دوستوں اور کزنز کا مذاق صرف اس لیے برداشت کر لیتا تھا کہ کہیں وہ یہ نہ سمجھیں کہ وہ ان کی بات کا برا منا رہا ہے۔لیکن جو کل ہوا تھا وہ تو ٹو مچ ہوگیا تھا۔زندگی اسی طرح گزر رہی تھی اور وہ اسی ماحول کا عادی ہو رہا تھا۔کبھی کبھار وہ بھی ان کے ساتھ ہنسی مذاق کر لیتا تھا۔لیکن اس کے مذاق کسی کا دل نہیں دکھاتے تھے۔کسی کی جسمانی ساخت پر طنز نہیں ہوتے تھے۔کیوں کہ وہ حلال جوکس کا قائل تھا۔ کیا آپ جانتے ہیں حلال جوکس کیا ہوتے ہیں؟

یہ کل اس کی یونیورسٹی کا واقعہ تھا جب وہ اپنی ایک کلاس فیلو کو گراؤنڈ میں بیٹھنے منع کر رہا تھا کہ۔۔۔

"سسٹر آپ یہاں مت بیٹھیں سامنے میل اسٹوڈنٹس آپ کو دیکھ کر آپس میں معنی خیز جملوں کا تبادلہ کر رہے ہیں۔ میں ان سب کو منع نہیں کر سکتا کیوں کہ وہ لوگ اس کا غلط مطلب لے سکتے ہیں،اور میری غیرت یہ گوارا نہیں کرتی کہ میری وجہ سے کسی لڑکی کی عزت یا کردار پر کوئی بھی شخص انگلی اٹھائے۔" اس لڑکی نے عجیب نظروں سے اسے دیکھا۔اور قدرے حیران ہو کر پوچھا۔

"آپ وہاں ان کے ساتھ بیٹھ کر ان کا ساتھ دینے کی بجائے مجھے سمجھانے آگئے؟ ایسا کیوں؟"

"کیوں کہ میں بے غیرت نہیں ہوں۔ آپ یہاں سے اٹھ جائیں بس فلحال میری اتنی ہی گزارش ہے۔" حکم دینے والے انداز میں کہتا وہ منت کر رہا تھا۔ وہ لڑکی اٹھ کر جاچکی تو وہ واپس ان لڑکوں کے گروپ کے پاس آیا۔وہ اسی کی کلاس کے اور کچھ جونئیرز تھے۔اسے دیکھ کر فوراً وہاں سے اٹھ گئے۔کیونکہ وہ جانتے تھے اگر یہ اپنی آئی پر آگیا تو ان کا یونیورسٹی میں رہنا مشکل ہو جائے گا۔وہ یونیورسٹی کا چلتا پھرتا ہیلپ سینٹر تھا جس کا ہیلپ لائن نمبر تھا۔

حاطب بھائی! ہیلپ! ۔۔۔اور بس حاطب عمر ،ان کی مدد کے لیے حاضر ہوتا تھا۔

اس سے پہلے کہ وہ ان لڑکوں سے کچھ دیر پہلے کی جانے والی حرکت کے متعلق پوچھتا۔ ان میں سے ایک لڑکا جو ساری یونیورسٹی میں خود کو حاطب کا دوست کہتا تھا، دانت نکالتے ہوئے اسے دیکھنے لگا۔ حاطب کے ماتھے پر بے شمار بل پڑے تھے۔لیکن وہ صرف ضبط کر کے رہ گیا۔

"کیوں لالے! کہاں تک پہنچی بات؟ ویسے کمال کی بات ہے سیدھا پرنسپل کی بیٹی پر ہی لائنیں۔" قہقہہ لگاتے ہوئے اس لڑکے نے باقی سب کو بھی دیکھا جنہوں نے بتیسی کی نمائش کر کے اس کابھر پور ساتھ دیا۔

حاطب عمر کو ایسی گھٹیا بات کی امید کم از کم اس انسان سے نہیں تھی۔بے ساختہ ہی اس کا ہاتھ اٹھا تھا اور اگلے ہی لمحے ایک زناٹے دار تھپڑ ، صہیب کے منہ پر پڑا تھا۔یہ سب اتنا اچانک ہوا تھا کہ کسی کو کچھ سمجھنے کا موقع ہی نہیں ملا ۔ حاطب نے ایک قہر آلود نگاہ ان سب پر ڈالی اور آنکھوں کے اشارے سے پوچھا " کسی اور کو ڈوز چاہیے؟" تو وہ سب بے ساختہ دو قدم پیچھے ہٹے۔

صہیب ابھی تک شاک میں تھا۔وہ تو اکثر ایسے مذاق کرتا تھا۔ باقیوں کے ساتھ بھی۔یہاں تک کہ اپنی فی میل فرینڈز کے ساتھ بھی۔ لیکن حاطب کے ساتھ مذاق اسے اتنا مہنگا پڑے گا اس نے سوچا نہیں تھا۔سارے اسٹوڈنٹس آہستہ آہستہ وہاں جمع ہورہے تھے۔ایک ہجوم اکٹھا تھا۔لیکن حاطب کو ایس لگ رہا تھا اس کے دماغ کی نسیں پھٹ جائیں گی۔وہ دو قدم چل کر صہیب کے پاس آیا اور اسے کالر سے پکڑ کر ایک نظر سب کو دیکھا۔

" یہ گھٹیا انسان! مجھ پر الزام لگا رہا ہے کہ میں، یعنی کہ حاطب عمر !! ۔۔۔ " اس نے دوسرا ہاتھ اپنے سینے پر رکھ کر میں پر زور دیا۔

"میں سسٹر سارہ پر لائن مار رہا تھااور ان کے ساتھ فلرٹ کر رہا تھا ۔" غصے کو ضبط کرتے ہوئے وہ تقریباً چلایا تھا۔وہاں موجود سب لوگوں نے ایک نظر حاطب کے ضبط سے سرخ پڑتے چہرے کو دیکھا اور پھر تنفر بھری نظروں سے صہیب کو۔

"کیا کہتے ہو گائز آج صہیب کی ہو جائے تھوڑی سی ٹیونگ؟" حاطب کے بیسٹ فرینڈ احمد کی جوش بھری آواز وہاں گونجی تو کچھ مزید لڑکے آگے آئے۔جنہوں نے اس دوران اپنی آستینیں کہنیوں تک فولڈ کر لی تھیں ۔ یہ سب وہ لوگ تھے جن کی اگلی کلاس فری تھی اور جن کا لیکچر اسٹارٹ ہوچکا تھا وہ برا سا منہ بناتے وہاں سے جا چکے تھے۔ خیر واٹس ایپ گروپ میں ریکارڈنگ تو مل جانی تھی لیکن لائیو کا تو اپنا مزہ ہوتا ہے نا؟

حاطب نے اپنا فون نکالا اور کیمرہ آن کر کے اپنے گینگ کو دیکھا جو اس کے ایکشن بولنے کا انتظار کررہے تھے۔ صہیب اور اس کی پلٹن کو وہ نہایت احترام کے ساتھ اپنے دوستوں کو ہینڈ اوور کر چکا تھا۔

ایکشن!! ۔۔۔ حاطب کی آواز پر وہ لوگ شروع ہوچکے تھے۔ لاتیں، گھونسے،تھپڑوں کے ساتھ اچھی خاصی دھلائی کر کے وہ لوگ ایک پل کے لیے رکے تھے۔

"حاطی! یار بس ہے آج کے لیے؟" احمد نے اپنا پسینہ صاف کرتے ہوئے پوچھا۔حاطب جو ساتھ ساتھ کمنٹری میں مصروف تھا اس کی بات سن کر رج کے بد مزہ ہوا تھا۔

"احمد!! ابھی کچھ سوال جواب کا سیشن ہوجائے۔ ان سے پوچھ کہ یہ سسٹر سارہ کے بارے میں کیا بات کر رہے تھے؟" اس کی بات پر احمد اینڈ گینگ نے ایک ایک چماٹ ان سب کو لگا کر حاطب کا سوال دہرایا۔

"یار! ہم لوگ تو مذاق کر رہے تھے اور حاطب تم تو میرے دوست ہو اور دوستوں میں یہ سب چلتا ہے۔" صہیب نے امید طلب نظروں سے حاطب کو دیکھتے ہوئے کہا۔

اس کی بات پر حاطب کے ماتھے پر بے ساختہ بل پڑے اور اس نے ایک نظر سر تا پیر اس کا جائزہ لیا۔وہ واقعی قابلِ رحم لگ رہا تھا۔

"یہ مذاق تھا؟ واقعی؟ اسے ٹھرک پن نہیں کہتے؟" آنکھوں میں تپانے والی مسکراہٹ لیے وہ پوچھ رہا تھا۔ احمد نے بمشکل اپنی ہنسی دبائی۔

"ہاں یہ بس مذاق ہی تو تھا۔ میں ٹھیک کہہ رہا ہوں ناں یار؟" اس نے اپنے دوستوں کی طرف دیکھتے ہوئے آخری بات کہی۔

"ٹھیک ہے احمد! جانے دو ان سب کو، لیکن آئندہ اگر تم لوگ مجھے کسی لڑکی کے آس پاس بھی نظر آگئے ،مذاق مذاق میں بھی تو تم لوگوں کا وہ حال کروں گا کہ سات نسلوں تک نہیں بھولو گے۔"

تنبیہی نظروں سے ان سب کو دیکھتا انگلی کے اشارے سے وارنگ دیتا وہ کیمرہ بند کر چکا تھا۔ احمد اینڈ گینگ نے ان سب کو جانے دیا اور وہ لوگ بھی وہاں سے سر پٹ بھاگے تھے۔حاطب نے ستائشی نظروں سے ان سب کو دیکھا اور ان کے کارنامے پر داد دی ۔

"یہ لو سمیر! اس کی اچھی سی ایڈیٹنگ کرو اور شام تک گروپ میں فار ورڈ کرو۔" اپنا فون سمیر کو پکڑاتا وہ اندر کی جانب بڑھا جب علی نے اسے پیچھے سے آواز دی۔

"حاطب بھائی!! ٹائٹل کیا دینا ہے اس فلم کو؟" حاطب آنکھوں میں فاتحانہ چمک لیے واپس پلٹا تھا۔

" اس کا ٹائٹل ہوگا۔۔۔کیسا لگا میرا مذاق؟" چار لفظی جواب دے کر وہ وہاں سے چلا گیا تو سمیر نے اس کا فون اپنی پاکٹ میں رکھ کر ان سب کو بھی ساتھ چلنے کا اشارہ کیا۔

وہ سب جیسے ہی کلاس میں آئے تو وہاں حاطب نہیں تھا۔ علی بھی اپنی کلاس کے اسٹوڈنٹس کے ساتھ اپنی کلاس میں جاچکا تھا۔

"یہ کہاں گیا ہے؟" احمد نے ان سب کو ایک نظر دیکھ کر سوالیہ انداز میں پوچھا ۔

" پرنسپل کے آفس میں۔"ان سب کی آواز ایک ساتھ آئی تھی۔وہ لوگ پرنسپل آفس کی طرف بھاگے تھے لیکن وہاں بھی وہ نہیں تھا۔پھر وہ لوگ سر جھٹک کر اپنی کلاس میں چلے گئے۔اب چھٹی کے بعد دیکھیں گے کیا کرنا ہے؟

چھٹی کے بعد بھی وہ ان سب کے بغیر ہی گھر چلا گیا۔ شام تک ویڈیو بھی گروپ میں شئیر ہو چکی تھی ۔لیکن حاطب عمر کی گروپ میں خاموشی سب کو چبھ رہی تھی۔

دوسری طرف وہ اپنے کمرے میں بیڈ پر بیٹھا۔ سوچوں میں غرق تھا۔ فون اس کے پاس تھا جو سمیر نے اپنے بھائی کے ہاتھ بھجوا دیا تھا۔لیکن اس نے ویسے ہی رکھ دیا۔

اللہ! آخر کیوں یہ لوگ مجھے چین سے جینے نہیں دیتے؟ وہ دل ہی دل میں شکوہ کررہا تھا ۔ وہاں تو اس نے سب ہینڈل کر لیا تھا لیکن گھر آکر نا چاہتے ہوئے بھی اس کی سوچوں کا رخ اس طرف چلا گیا۔ وہ اپنی حساس طبیعت کے پیشِ نظر کچھ زیادہ ہی سوچ رہا تھا۔ جانتا تھا وہ لوگ اس بات کو بھول چکے ہوں گے لیکن حاطب عمر کی زندگی میں یہ ایک کسک تھی جو ساری زندگی اس کو مختلف موقعوں پر ٹرگر کرنے والی تھی۔

ابھی کچھ دن پہلے وہ سب کزنز اکٹھے ہوئے تھے اور آپس میں گپ شپ کے دوران اس کے ایک نہایت صاف گو( بقول حاطب کے منہ پھٹ) کزن نے ان کے ہمسائیوں کی لڑکی کو چھت پر دیکھ کر حاطب پر جملہ کسا۔

"عمر! یار وہ بچی چیک کر!" اس لمحے حاطب کا دل چاہا تھا کہ اس کا منہ توڑ دے لیکن تبھی حاطب کے بڑے بھائی نے ہنس کر بات ٹال دی۔

"ارے نعمان تم بھی کیسی باتیں کرہے ہو ۔وہ بچی ہمارے حاطب کے ہاتھوں میں پلی ہے اور ویسے بھی اسے بہنوں کی طرح عزیز ہے۔ حاطب وہاں سے اٹھ کر چلا گیا مزید وہاں بیٹھنا اس کے بس کی بات نہیں تھی اور اس کے بھائی جو اس ٹرینڈ سے بلکل ناواقف تھے وہ نہایت معصومیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے نارمل بات سمجھ رہے تھے۔

"ارے بھائی! میں جانتا ہوں! اب بندہ مذاق بھی نہ کرے اور بھلا یہ کوئی برا ماننے والی بات تھی؟ جو عمر کو برا لگ گیا ہے۔لڑکوں میں تو یہ عام سی بات ہے۔" نعمان کی بات پر حاطب کے بھائی کے چہرے پر ناگوار سا تاثر آیا۔ان کے گھر میں تو ماں بہن کی گالی دینا بھی گناہِ کبیرہ تصور کیا جاتا تھا۔جو کہ ہے بھی لیکن اگر نعمان کے گھر کی بات کی جائے تو وہ لوگ "گالی پہلے اور بات بعد میں۔" والے اصول پر سات پشتوں سے عمل کر رہے تھے۔

اسی طرح اپنی زندگی کے تلخ تجربات کا جائزہ لیتے وہ ساری رات بے چین رہا اور صبح ہوتے ہی وہ پارک میں موجود تھا۔کچھ دیر وہیں بینچ پر بیٹھنے کے بعد پارک کا ایک راؤنڈ لگانے کا ارادہ کرتا وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ آہستہ آہستہ چلتا وہ ٹریک تک آیا اور دوڑھنا شروع کیا۔کل والے واقعے کے بارے سوچتے ہی اس کی رفتارمزید تیز ہوئی۔ وہ مسلسل بھاگ رہا تھا اور پیچھے کوئی اور پھولے ہوئے سانس کے ساتھ اس کی رفتار سے ملنے کی کوشش کر رہا تھا۔ وہ شاید اسے آوازیں بھی دے رہا تھا۔لیکن حاطب عمر نے نہ رکنے کی قسم کھائی تھی۔ تبھی اچانک اس انسان نے اونچی آواز میں کچھ کہا جسے سن کر حاطب ایک جھٹکے سے رکا اور مڑ کر اسے دیکھا۔

" دو کانوں والے! رکو ذرا۔" احمد تقریباً چلایا تھا۔حاطب وہیں کھڑا رہا جب وہ اس کے قریب آیا اور اس کے کندھے پر ایک مکا مارتے ہوئے اپنے ماتھے پر آیا پسینہ صاف کیا۔

"کانوں میں روئی ٹھونس کر بھاگ رہے تھے کیا ؟"

"یہ دو کانوں والا کیا ہوتا ہے؟ سب کے دو ہی ہوتے ہیں بتانے کی ضرورت نہیں! " وہ صاف برا مان گیا تھا۔ احمد نے ایک نظر اسے دیکھا اور پھر بے ساختہ قہقہہ لگایا ۔

"گدھے! میں تو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کے مطابق مذاق کر رہا تھا وہ کیا کہتے ہو تم حلال جوکس! وہی۔" حاطب کی آنکھیں حیرت سے پھیلیں۔ کیا واقعی ؟

"ہاں یار! نبی ﷺ حضرت انس رضی اللہ عنہ کو ،دو کانوں والا !! بھی کہا کرتے تھے۔"

" یار میں سوچتا ہوں کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلّم نے ہمیں ہر چیز کا ایک طریقہ بتایا ہے۔جو حلال ہے اور اس سے کسی کو تکلیف بھی نہیں ہوتی لیکن آجکل لوگوں نے اس کا بھی الگ ہی انداز بنا لیا ہے۔ہمارے لڑکے سمجھتے ہیں کہ اگر وہ اپنے مذاق میں لڑکی کو شامل نہیں کریں گے تو ان کے مذاق پر کوئی ہنسے گا نہیں۔" حاطب کے لہجے میں دکھ بھی تھا اور ماضی کی کچھ تلخ یادوں نے اسے مزید دکھی کر دیا۔

"صحیح بول رہا ہے یار! چل ایک کام کر اب گھر جا ،یونی کے لیے دیر ہورہی ہے۔"احمد نے اپنی گھڑی پر نظر ڈال کر اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا ۔
"ہاں ٹھیک ہے۔ تو ایک کام کرنا گروپ میں میسج کر کہ سب لوگ ایک ایک حلال جوک اپنی زندگی میں ہوئے واقعات کی بنا پر گروپ میں سنائیں یا لکھ کر بھیجیں اور سب کی رائے لیں کہ ۔۔۔ کیسا لگا میرا مذاق؟" حاطب کی بات پر احمد نے بے ساختہ قہقہہ لگایا اور گھر کی جانب چل دیا۔حاطب بھی نے سب سوچوں کو جھٹکتے ہوئے اپنے گھر کی جانب قدم بڑھائے۔

نوٹ:۔ مذاق وہ کریں جو کسی کے چہرے پر مسکراہٹ لائے ،نہ کہ وہ جو لوگوں کی زندگی میں کڑواہٹ گھول دے۔آپ تو یہ کہہ کر اپنا دامن چھڑوا لیں گے کہ میں نے تو مذاق کیا تھا لیکن جس کے ساتھ آپ مذاق کرتے ہیں وہ شاید ساری زندگی ان الفاظ کے اثر سے نہ نکل پائے۔کل کو قیامت والے دن اگر فرشتوں نے بھی جہنم میں پھینک کر پوچھا کہ ۔۔۔”کیسا لگا میرا مذاق؟ “ تو پھر آپ کے لیے مسئلہ ہو سکتا ہے۔

People Also Read


Connect With Writer

Instagram:  Noor_e_huda

Post a Comment (0)
Previous Post Next Post