عنوان : میری سر زمین پاک
تحریر: اقراء فاطمہ
یہ دھرتی جس کو ہم ماں کہتے ہیں
کیا کوئی ماں کو یوں چھوڑ کر بھی جاتا ہے
آج شام اس کی امریکہ کی فلائٹ تھی سات سمندر پار دیارِ غیر میں ۔روانگی کی تیاریاں عروج پر تھیں سب بھاگم بھاگ کام میں لگے ہوئے تھے وہ ہاتھ میں موبائل فون پکڑے کچھ دیکھ رہا تھا اچانک ایک پیغام نے اس کی توجہ اپنی طرف کھینچ لی ۔"چودہ اگست آنے والی ہے اپنے وطن ،ملک و قوم کی خدمت میں حصہ ڈالیں اور ذمہ دار شہری ہونے کا ثبوت دیں"
یہ دیکھنا تھا کہ اس کے ذہن میں جھماکا سا ہوا ۔وطن ،قوم،ملک،شہری!!!
مگر میں تو ؟
وہ اٹھ کھڑا ہوا کمرے میں بے چینی سے یہاں وہاں چکر لگاتا رہا اتنے میں ظہر کی اذان کی صدائیں بلند ہوئی نماز ادا کرتے ہوئے بھی اسکا دھیان اس پیغام کی طرف تھا جو اس نے کچھ دیر پہلے پڑھا تھا وہ چاہ کر بھی ان الفاظ کو اپنے ذہن سے محو ہونے نہیں دے رہا تھا نماز سے فارغ ہوتے ہی وہ امام صاحب کے پاس گیا اور کچھ پوچھنے کے لیے اجازت طلب کی ۔
امام صاحب کی حامی بھرنے پر اس نے ان سے پوچھا ؛
امام صاحب! کیا اپنے وطن سے چلے جانے والے اپنی شناخت،اپنی پہچان کھو دیتے ہیں؟
امام صاحب: بیٹا پہچان یا شناخت یہ آپکا انتخاب ہوتا ہے جو پہچان آپ کو آپ کے ملک نے دی ہے کیا آپ اس کو کسی قیمتی اثاثے کی طرح سنبھال کر رکھتے ہیں یا کسی ردی کی طرح بیچ ڈالتے ہیں کچھ لوگ اپنے ملک میں رہتے ہوئے بھی اپنی پہچان نہیں بنا پاتے جو ان کو ملک نے دی اس کو بھی وہ کھو بیٹھتے ہیں
وہ پھر سے بولا
لیکن اس ملک میں پہچان کیسے بنائیں یہاں ہے ہی کیا کہ یہاں رہا جائے ۔۔۔
منظرتبدیل ہوا۔۔
اب جیسے ہی وقت شام کی طرف قدم دھرنے لگا اس نے اپنا رخت سفر باندھا اور گھر سے نکلنے لگا دروازے پر رک کر کچھ سوچا اور ذہن میں آئے خیال کو اسی لمحے جھٹک کر گاڑی میں بیٹھ کر ائیر پورٹ کی طرف روانہ ہو گیا پھر سے اس کے ذہن کے پردے پر امام صاحب سے کی گئی گفتگو لہرائی جب اس نے پوچھا تھا کہ "یہاں ہے ہی کیا"
تو انہوں نے جواب دیا
بیٹا ! آپ کو پتا ہے نا ہم اور ہمارے آباؤاجداد غلام تھے ،ہم قید تھے ان دیکھی مذہب،اقدار،سیاست اور کئی اور زنجیروں میں۔
پھر کیا ہوا ہمارے قومی شاعر علامہ محمد اقبال کا خواب آزادی کی صورت میں شرمندہ تعبیر ہوا اور ہمارے قائد کی قائدانہ صلاحیتوں کی بدولت ہم آزاد ہوئے انہوں نے ہماری اتنے عرصہ کی غلامی اور تکلیفوں کے بدلے تحفے میں "ملک پاکستان" دیا
آپ کہتے ہو اس ملک نے ہمیں کیا دیا آج اس بحث کو چھوڑو یہ بتاؤ آپ نے اس ملک کو کیا دیا ؟
اس کی ترقی کے لیے کیا کردار ادا کیا؟
حال میں واپس آتے ہی وہ ائیر پورٹ کے سامنے کھڑا تھا جیسے جیسے قدم آگے بڑھ رہے تھے ذہن سوالوں کے طوفان کی زد میں آرہا تھا
اور پھر اچانک ایک آواز نے اس کے قدم روک لیے ۔۔۔
رکو، سنو! کہاں جا رہے ہو ؟
کیا تم گھبرا گئے حالات سے ؟
مانا کہ اب وقت سخت ہے
لیکن خوشگوار دن بھی دور نہیں
یاد ہے نا تم کو میں نے اپنی گود میں کھلایا ہے
میری نرم مٹی پر تمہارے ننھے قدموں کے نشان ہیں
کیا تم بھول گئے کہ تم
*پاک سر زمین* کا ترانہ پڑھتے پڑھتے بڑے ہوئے
اب تم جوان ہو ،مضبوط ہو
کیا بوڑھی ماں کو ایسے حالات میں اکیلا چھوڑ دو گے
رکو ! یہاں رہو
حالات بدلو
تم دھرتی کو ماں کہتے ہو
کیا کوئی ماں کو بھی یوں چھوڑ کر جاتا ہے
اسی ضمیر کی آواز کے ساتھ اس کے قدم واپسی کی طرف مڑے اس پاک سر زمین نے پھر سے اسے اپنی آغوش میں لے لیا
آزادی مبارک
پاکستان زندہ باد پائندہ باد
People Also read
Amazing words 👏🏻💕
ReplyDeleteدلکش الفاظ سے خوبصورت جہان آباد کردیا۔
ReplyDeleteشہزادی اللّٰہ پاک تمہارے قلم کو ہمیشہ رواں رکھے۔ ❤️
"تم وطن کو ماں کہتے ہو
ReplyDeleteکوئی ماں کو بھی یوں چھوڑ کر جاتا ہے"
دل کو چھو لینے والا انداز
دلکش انداز ِبیان
ReplyDeleteحب الوطنی سے لبریز تحریر
اللہ کرے آپکا قلم یونہی رواں رہے
ماشاءاللہ ماشاءاللہ اعلیٰ 👌
ReplyDeleteچھاااا گئے!
مالک اللہ زبان و قلم میں مزید تاثیر عطا فرمائے آمین
ReplyDeleteFabulous💕keep it up sister💓May Allah bless u give u more success .keep up the fantastic work!u re making a real difference 😊🌺
ReplyDeleteMashallah well done
ReplyDeleteعمدہ . . خوب تحریر
ReplyDeleteایک بہترین کاوش اور بہترین انداز۔۔۔
ReplyDeleteلکھتے ہوئے جس طرح الفاظوں کا ربط ہے بے مثال ۔۔۔
مصنفہ نے الفاظ کو جمع ہی نہیں، وطن کی محبت کو رچایا بسایا بھی ہے۔
قوم کو آزادی کے موقع پر اتنا بہترین تحفہ اعلیٰ ۔۔۔
Keep it up Writer
ReplyDelete