لیکن۔۔ لیکن ان کے جانے کے بعد مجھے احساس ہوا کہ میں واقعی ان دونوں سے کس قدر
محبت کرتا تھا، سچی محبت ۔ ماں کی طلب بے چین کرتی تو میں ان کی قبر پر چلا جاتا اور بھائی کی۔۔۔اس کا
کونے کا اوپری کمرا نئے انداز میں ڈیکوریٹ کر دیا گیا تھا۔ خوب صورت سجاپنا، خوشبو دار ، اب اس گھر
میں کوئی شور نہ تھا۔ کوئی ہو نہ تھی۔ کسی کے نعرے نہیں تھے۔ کہیں زنجیر کی کھنک نہ تھی۔ زندگی سب کے لیے
نیا آغا ز لائی تھی ۔ مگر میرے لیے زندگی ٹھہر چکی تھی۔
مجھے راتوں کو خواب دکھائی دیتے ۔ مونس اور امی۔۔۔امی اور مونس ۔
میری زندگی سے قرار رخصت ہو چکا تھا۔ مجھے اپنا وعدہ یاد تھا کہ مجھے بھائی کو ڈھونڈنا ہے۔ مگر
کیسے۔ واحد شخص میرا باپ تھا۔ ابصار احمد ۔۔۔ اور ۔۔۔ اور تمہیں بتاؤں میں ان سے، ان سے ڈرنے
لگا تھا۔ وہ مجھے بھی ، وہ مجھے بھی ایسے ہی ایک روز کہیں چھوڑ آئیں گے۔ میں بہت چھوٹا تھا۔ کمزور، بے
بس انجان ۔ میں بہت چھوٹا تھا بشائر “