اس سے تو بہتر تھا کہ میں اس ایکسیڈینٹ میں مر ہی جاتا " کاشف چڑ کر بولا تھا۔ ڈیڑھ مہینہ گزرنے کے بعد بھی وہ مکمل طور پر
صحتیاب نہیں ہوا۔ تکلیف ایسی تھی کہ کچھ کھا نہیں سکتا ، بیٹھ نہیں سکتا تھا۔ ڈاکٹر ز نے دس دن پہلے ڈسچارج تو کردیا تھا لیکن پھر بھی
احتیاط کی تاکیدکی تھی۔ صوفیہ مکمل مشرقی بیوی کی طرح اس کی خدمت میں دن رات جنتی ہوئی تھی۔
یہ آسان مرحلہ نہیں تھا۔ ۔ شیر کی طرح دھاڑتے، گھوڑے کی طرح بھاگتےصحت مند شوہر کو بستر پر لاچار پڑے دیکھ دیکھ کر ہی صوفیہ کی
آدھی ہمت ختم ہو چکی تھی پھر مالی مسائل بھی بے حد پیچیدہ ہوتے جارہے تھے۔ جبیبہ کے مرنے کے بعد تیسرے ہی دن اس کے قطر والے
بہن بہنوئی حساب کتاب لینے آپہنچے تھے اور یہ پاکستان نہیں تھا کہ کاشف بہت آرام سے کسی کا حق مار لیتا۔۔۔ ہر چیز باقاعدہ قانونی طریقے سے
کی گئی تھی ۔۔ دونوں پارٹنرز کے شیر ز کے حصے بخرے ہوئے تھے اورکاشف کے حصے میں بمشکل چالیس فیصد ہی آیا تھا وہ بھی حبیبہ کے بھائی
نے بے حد احسان جتا کر کہا تھا کہ وہ ترس کھا کر یہ سب دے رہا ہے۔ جو بھی آیا تھا وہ بہت تیزی سے اس کے علاج پر
خرچ ہورہا تھا۔ زرمین ایک کنڈرگارٹن میں جارہی تھی اور اس کی پوری ٹرم کی فیس جمع تھی لیکن پک ڈراپ کی سہولت نا ہونے کے باعث وہ
بھی ہمہ وقت گھر پر ہوئی تھی۔
ہم پاکستان پہلے جاتے ہیں کاشف ۔۔ بچے کچھے سرمائے سے وہاں کوئی چھوٹا موٹا بزنس کر لیجئے گا آپ ۔ اللہ کا کرم ہے کہ اپنا
گھر ہے وہاں۔۔۔ ورنہ یہاں تو کرائے اور دوائیاں ہی کھائے چلے جارہے ہیں