Jab Jang hoti ha by Fatima

 

Jab Jang hoti ha by Fatima


جب جنگ ہوتی ہے... تو صرف بارود نہیں برستا، انسانیت بھی جلتی ہے۔
یہ کہانی دو دشمن ممالک کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی، سرحد پار حملوں، اور اس کے بعد ہونے والی تباہ کاریوں پر مبنی ہے۔ ہر حملے کا جواب، ایک نیا زخم چھوڑتا ہے۔ سیاستدان بیان دیتے ہیں، میٹنگز کرتے ہیں، اور بدلہ لیتے ہیں — مگر مرتے ہمیشہ عام لوگ ہیں۔ بچے، عورتیں، بوڑھے، جوان — جن کا نہ کوئی جرم ہوتا ہے، نہ دشمنی، صرف قربانی۔


چھوٹا سہ افسانہ صرف گولہ بارود کی گھن گرج نہیں، بلکہ ان چیخوں کی بازگشت ہے جو کسی میز پر نہیں پہنچتیں۔
یہ کہانی سوال کرتی ہے:
کیا بدلہ ہی سب کچھ ہے؟
کیا انصاف صرف جنگ سے حاصل ہوتا ہے؟
کیا دونوں طرف کے معصوم لوگ اس بدلے کا حصہ ہیں؟
اور سب سے اہم — جنگ جیتتا کون ہے؟


نوٹ: یہ افسانہ مکمل طور پر تخیلاتی ہے۔ اس میں بیان کردہ تمام مقامات، شہر، گاؤں، اور ملک فرضی ہیں۔ اگر کسی نام یا واقعے کی مشابہت حقیقت سے ہو جائے تو اسے محض اتفاق سمجھا جائے۔ اس تحریر کا مقصد کسی قوم، فرد یا ادارے کو نشانہ بنانا نہیں، بلکہ انسانیت کے درد کو اجاگر کرنا ہے۔


رات کے تقریباً دو بجے کا وقت تھا۔
نورآباد گاؤں میں ہمیشہ کی طرح نور چھایا ہوا تھا، ہر طرف سکون پھیلا ہوا تھا۔
لیکن اچانک چاروں طرف سائرن کی آواز گونجنے لگی۔
سائرن کی آواز سنتے ہی اپنے گھروں میں سکون سے سوئے ہوئے لوگ ایک دم بیدار ہو کر اپنے گھروں سے باہر نکل آئے۔
کسی کو کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا ہو رہا ہے۔
لیکن دور آسمان کی فضاؤں میں ایک روشنی سی چمکی، پھر کوئی چیز اُڑتی ہوئی آسمان سے زمین سے ٹکرائی۔
جیسے ہی وہ زمین سے ٹکرائی، ایک روشنی کا جھماکا ہوا، اور اس جھماکے کے ساتھ ایک کان پھاڑ دینے والا دھماکہ ہوا۔
ساتھ ہی دھواں اٹھا۔
مکان، بلڈنگیں، انسان — سب فضا میں اُڑنے لگے جیسے وہ کوئی چیز ہی نہ ہوں۔

نورآباد گاؤں کچھ ہی لمحوں میں مٹی کا ڈھیر بن چکا تھا۔
ہر طرف بھگدڑ مچ چکی تھی۔
کچھ لوگ جان بچانے کے لیے دیوانہ وار بھاگ رہے تھے،
تو کچھ مٹی کے نیچے ہمیشہ کے لیے دفن ہو چکے تھے۔
زخمیوں کی چیخ و پکار، اپنوں کو کھو دینے والوں کی صدائیں، اور بےبس آہیں فضا کو چیر رہی تھیں۔
یہ صدائیں اتنی دل خراش تھیں کہ چاند، ستارے بھی کانپ اُٹھے۔

ابھی چیخوں کی گونج تھمی نہ تھی کہ ان آوازوں کو چیرتے ہوئے فوجی گاڑیاں وہاں پہنچ گئیں۔
ایمبولینسوں کے سائرن، دوڑتے فوجی، اور ہنگامی ٹیمیں — ہر سمت ایک افراتفری کا عالم تھا۔
نورآباد، جو کبھی سانس لیتا، جیتا جاگتا گاؤں تھا... اب ایک قبرستان بن چکا تھا۔
لوگ زندہ تھے، مگر اندر سے مر چکے تھے۔

جب جنگ ہوتی ہے...
مرتے ہیں عام لوگ۔
نقصان ہوتا ہے عام لوگوں کا۔
تڑپتے ہیں عام لوگ۔
اپنے گھروں سے بے گھر ہوتے ہیں عام لوگ۔
اپنے پیاروں کو کھو دیتے ہیں عام لوگ۔
جب جنگ ہوتی ہے... بستیاں ویران ہو جاتی ہیں۔

نورآباد پر حملے کی خبر،
جنگل کی آگ کی طرح پورے ملک میں پھیل چکی تھی۔


رات کا سکوت ٹوٹ چکا تھا، اور نئے دن کی شروعات بہت سی پریشانیوں کے ساتھ ہوئی۔
صبح ہوتے ہی ہر چینل پر صرف ایک ہی خبر گونج رہی تھی۔ نیوز اینکرز چیخ چیخ کر نور آباد گاؤں پر ہوئے حملے کی تفصیلات بتا رہے تھے۔

"گزشتہ شام ایسٹرون نے اچانک، بغیر کسی وارننگ کے نور آباد پر حملہ کیا!"
ٹی وی اسکرین پر لال بریکنگ نیوز کی پٹی مسلسل چل رہی تھی۔

ایسٹرون کی جانب سے دعویٰ کیا گیا:

"ہم نے حملہ کسی عام آبادی پر نہیں کیا، بلکہ نور آباد گاؤں کے قریب دہشت گرد تنظیموں کا ایک مضبوط ٹھکانہ موجود تھا۔ ہمارا ہدف صرف انہی دہشت گردوں کو نشانہ بنانا تھا، عام لوگوں کو نہیں!"

مگر زمینی حقیقت کچھ اور تھی — ملبے تلے دبی لاشیں، خون میں لت پت بچے، چیختی ماؤں کی صدائیں اور تباہ شدہ گھر کچھ اور کہانی سنا رہے تھے۔

کراسٹرون نے ایسٹرون کے اس حملے کو جنگی جارحیت قرار دیتے ہوئے سخت مذمت کی ہے۔
دوسری جانب، دنیا بھر کے کئی ممالک نے ایسٹرون کے اس یکطرفہ اقدام پر تنقید کی ہے اور دونوں ممالک سے تحمل کی اپیل کی ہے۔

لیکن فی الحال، کراسٹرون میں جنگ کا دباؤ بڑھ چکا ہے۔


جب جنگ ہوتی ہے
نقصان ہوتا ہے دیش کا
انفراسٹرکچر کا
جغرافیائی ایریا کا
ملک کا مالی نقصان ہوتا ہے

جب جنگ ہوتی ہے
بہت سی جانے جاتی ہیں
بہت سے خواب مٹی میں دفن ہو جاتے ہیں
بہت سے لوگ اپنوں کو کھو دیتے ہیں
بہت سے بچے یتیم ہو جاتے ہیں
جب جنگ ہوتی ہے
صرف فوجی نہیں،
عام لوگ بھی مرتے ہیں… اور جیت کوئی نہیں پاتا۔


دوسری جانب، کراسٹرون میں ایسٹرون حملے کے بعد صورتحال انتہائی تشویشناک ہو چکی تھی۔ ایسٹرون کارروائی کے بعد ملک بھر میں ایک عجیب سی چپ سی چھا گئی تھی، جیسے ہر شخص کچھ نہ کچھ ہونے کے انتظار میں تھا۔ نیوز چینلز پر ایسٹرون حملے کی خبریں چل رہی تھیں اور اینکرز، جن کی آوازوں میں غصہ اور بدلہ لینے کی شدت تھی، مسلسل اس بات کا تذکرہ کر رہے تھے کہ ایسٹرون نے اپنے "دشمنوں" کو سزا دی ہے۔
ان کی آوازوں میں اطمینان کی جھلک تھی، جیسے کوئی فاتح ہو، جسے اس کی جیت پر فخر ہو۔ "ہم نے بدلہ لے لیا!"، وہ بار بار یہی الفاظ دہرا رہے تھے۔
"ہم نے ان دہشت گردوں کو مار ڈالا جنہوں نے ہمارے معصوم لوگوں کو قتل کیا!"

لیکن، کیا کوئی ان سوالات کا جواب دینے والا تھا؟
کیا یہ اتنا سادہ تھا کہ بس ایک گروہ کی غلطیوں کی سزا پورے علاقے کو دے دی جائے؟
کیا یہ حقیقت نہیں کہ جن علاقوں پر بم برسائے گئے، وہاں صرف دہشت گرد نہیں بلکہ معصوم شہری بھی موجود تھے؟
ننھے بچے جو ابھی دنیا کو سمجھنے کی عمر میں تھے، وہ کیوں اس قتل و غارت کا شکار بنے؟
وہ بوڑھے والدین جنہوں نے زندگی بھر محنت کی، وہ عورتیں جو اپنے بچوں کے لیے زندگی کی دعائیں مانگ رہی تھیں، وہ نوجوان جو اپنے مستقبل کے خواب آنکھوں میں سجائے ہوئے تھے — ان کا کیا قصور تھا؟
کیا یہ حقیقت نہیں کہ حملے کے دوران یہ سب لوگ بھی اس تباہی کی زد میں آئے تھے؟
کیا ان کی زندگیوں کی کوئی قیمت نہیں تھی؟
انہیں کیوں مارا گیا؟

جب جنگ ہوتی ہے...
برساتے ہیں میزائل،
لڑتے ہیں انسانیت سے،
خون کی ندیاں بہاتی ہیں،
اور زمین کو سوگوار کر دیتی ہیں۔

جب جنگ ہوتی ہے...
صرف ایک ہی خیال ہوتا ہے،
"بدلہ لینا ہے!"
یہی واحد مقصد ہوتا ہے،
جو دل میں گھر کر لیتا ہے۔
ہر طرف صرف انتقام کی لگان ہوتی ہے،
لیکن کیا کبھی ہم نے یہ سوچا ہے کہ
یہ بدلہ کس کی قیمت پر لیا جا رہا ہے؟


جب جنگ ہوتی ہے...
جیت کسی کی نہیں ہوتی،
نہ وہ جو حملہ آور ہیں،
نہ وہ جو دفاع کر رہے ہیں۔
سب کچھ تباہ ہو جاتا ہے،
سب کچھ اجڑ جاتا ہے۔


جب جنگ ہوتی ہے...
تو نقصان صرف سرحدوں کا نہیں ہوتا،
نہ ہی صرف فوجی قوت کا،
بلکہ یہ نقصان ہوتا ہے انسانیت کا،
یہ نقصان ہوتا ہے ان لوگوں کا،
جو جنگ کے بیچ میں آ کر بے گناہ مر جاتے ہیں۔


دوسری طرف، کراسٹرون نے بھی ایسٹرون کے اس حملے کا شدید جوابی اقدام کیا۔
کراسٹرون فضائیہ نے علی الصبح ایسٹرون کے سرحدی علاقے شری نگر کے قریب موجود ایک مبینہ دہشت گرد کیمپ پر حملہ کیا۔
حملہ اتنا شدید تھا کہ پوری بستی لرز اٹھی۔
ایک لمحے میں زمین ہلی، فضا میں دھواں چھا گیا، اور چیخوں نے خاموشی کو چیر ڈالا۔

ہدف دہشتگرد تھے — مگر جو مارے گئے، ان میں زیادہ تر عام شہری تھے۔

شری نگر — جو کبھی خوشیوں اور امن کا شہر تھا — اب ایک قبرستان میں بدل چکا تھا۔

دونوں ملکوں نے "بدلہ" لے لیا تھا،
مگر یہ بدلہ نہیں — بدلے کی آگ تھی،
جس میں صرف دشمنی نہیں — انسانیت جل رہی تھی۔

یہ ایسی آگ تھی جس میں ہر حملہ پہلے والے سے زیادہ شدید،
اور ہر جواب، پہلے سے زیادہ خطرناک ہوتا جا رہا تھا۔


جب جنگ ہوتی ہے...

لڑتے ہیں فوجی —
مگر مرتے ہیں عام لوگ۔


میٹنگز کرتے ہیں سیاست دان —
مگر مرتے ہیں عام لوگ۔


جنگ لڑی جاتی ہے —
بم، بارود، میزائل، اور گولیوں سے —
لیکن ان کی زد میں آتے ہیں عام لوگ۔


مرتے ہیں فوجی —
مرتے ہیں عام لوگ۔


دونوں ممالک کی سرحدوں کے پار، تباہی کی ایک نئی لہر دوڑ چکی تھی۔

کراسٹرون اور ایسٹرون نے ایک دوسرے کے اہم شہروں پر حملہ کیا تھا۔ دونوں ممالک کے حکام نے اپنے میڈیا پر یہ اعلان کیا کہ ان کے حملے کا مقصد صرف دہشت گردوں کو نشانہ بنانا تھا، اور وہ عام شہریوں کو نشانہ نہیں بنانا چاہتے تھے۔ لیکن سوال یہ تھا: اگر عام لوگ ان کے ٹارگٹ نہیں تھے، تو پھر ان کو مارا کیوں؟

"اگر ٹارگٹ نہیں تھے تو پھر یہ کیوں ہوا؟"
"ہم بدلہ نہیں لے رہے، ہم انصاف کر رہے ہیں!" — یہ وہ بیانات تھے جو دونوں ملکوں کے حکام نے اپنے عوام کو تسلی دینے کے لیے دیے۔

مگر حقیقت کچھ اور تھی۔
عام لوگ، بچے، عورتیں، بزرگ — یہ سب کہاں جاتے؟
ان کا کیا قصور تھا؟
کیوں وہ اپنی جانوں کی قربانی دے رہے تھے؟

دونوں ممالک کے حملوں میں، دہشت گردوں کے کیمپ تباہ ہو گئے تھے، مگر ان کی آڑ میں، درجنوں گھر، خاندان، اور معصوم انسانوں کی زندگیاں بھی ختم ہو چکی تھیں۔
گھر جل کر راکھ ہو گئے، شہر ملبے میں بدل گئے۔
کیا دہشت گرد واقعی مارے گئے؟
کیا ایک حملے سے دہشت گردوں کا خاتمہ ہو جائے گا؟
کیا جنگ، دہشت گردوں کو ختم کر دے گی؟

یہ سوالات، جن کا جواب کسی کے پاس نہیں تھا۔

جنگ کا آغاز ہوا تھا — مگر جنگ کیا ہے؟

جنگ صرف تباہی کا نام ہے۔
یہ جانی اور مالی نقصانات کا غم ہے، یہ دلوں میں نفرتوں کا بیج ہے، جو نسلوں تک بڑھتا رہتا ہے۔
جنگ کوئی حل نہیں ہوتی، جنگ صرف زخموں کی گہری لکیریں چھوڑتی ہے، جو کبھی نہیں بھرتیں۔

جنگ سے ممالک غریب ہو جاتے ہیں، یہ سرحدوں کی فتح نہیں، بلکہ اپنی زمین، اپنی عوام کا خون چوسنے کا نام ہے۔
یہ سب کچھ تباہی کی ایک طویل کہانی ہے، جو کئی صدیوں تک یاد رکھی جاتی ہے۔

جنگ... یہ تباہی ہے، یہ نقصان ہے، اور اس کے اثرات کئی نسلوں تک رہتے ہیں۔

جنگ کا کوئی حل نہیں
تو پھر کیوں لڑ رہے ہیں ہم جنگ؟
کیوں برباد کر رہے ہیں ایک دوسرے کے شہر؟
کیوں روندی جا رہی ہیں بستیاں؟
کیوں بہایا جا رہا ہے معصوم انسانوں کا خون؟
کیوں جلائے جا رہے ہیں گھر؟
کیوں مارے جا رہے ہیں وہ لوگ جن کا اس سب سے کوئی تعلق ہی نہیں؟

کب تک؟
کب تک چلے گا یہ سلسلہ؟
کب تک عام لوگ قربانی کا بکرا بنیں گے؟
کب تک سیاست دان میزوں پر بیٹھ کر فیصلے کریں گے
اور قیمت چکائیں گے وہ لوگ جو صرف جینا چاہتے ہیں؟

ہماری آنکھوں کے سامنے فلسطین جیسے ملک تباہ ہو گئے۔
ہم نے خون میں لت پت بچے دیکھے۔
ہم نے اسپتالوں کو ملبہ بنتے دیکھا۔
ہم نے صدیوں کے خواب بکھرتے دیکھے۔
پھر بھی ہم سبق نہیں سیکھتے۔

ہم نے ہروشیما اور ناگاساکی میں وہ تباہی دیکھی
جس کے بعد نسلیں معذور پیدا ہوئیں،
زمین بانجھ ہو گئی،
اور انسانیت شرمسار ہو گئی۔
تو پھر بھی ہمیں جنگ کیوں چاہیے؟
ہم کس انجام کی طرف جا رہے ہیں؟

جنگ مسئلے کا حل نہیں — جنگ خود سب سے بڑا مسئلہ ہے۔

جنگ وہ آگ ہے جو صرف راکھ دیتی ہے
اور راکھ میں صرف خاکستر خواب ہوتے ہیں۔

تو پھر کب بند ہوگی یہ جنگ؟
کب ہم انسان، انسانیت کو فوقیت دیں گے؟

انصاف جنگ سے نہیں ملتا،
اور بھی طریقے ہوتے ہیں۔

کیا میز پر بیٹھ کر حکم دینے والا سیاست دان کبھی جائے حملہ پر جائے گا؟
کیا وہ دیکھے گا کہ کون مارا گیا، کون بچا، اور کس کا گھر راکھ ہوا؟

یہ آڈر دینے والے لوگ کیا جانیں،
کہ بم کی آواز کیسے کلیجے چیر دیتی ہے،
کہ ایک اندھی گولی کیسے کسی فوجی کے جسم کو پار کر جاتی ہے،
کہ ایک گھر کا چراغ کیسے اجالے سے اندھیرے میں بدل جاتا ہے۔

جب جنگ ہوتی ہے...
لاکھوں جانیں جاتی ہیں،
مرتے ہیں عام لوگ،
تڑپتے ہیں عام لوگ،
اپنوں کو کھوتے ہیں عام لوگ،
گھر لٹتے ہیں، خواب ٹوٹتے ہیں، دل بکھرتے ہیں۔

جب جنگ ہوتی ہے...
جیت کسی کی نہیں ہوتی،
مرتا صرف عام آدمی ہے۔

جب جنگ ہوتی ہے...
ضمیر مر جاتے ہیں،
مر جاتی ہے انسانیت۔
جب جنگ ہوتی ہے...
تو صرف تباہی ہوتی ہے۔
صرف تباہی۔


ختم شدہ


آخری بات:

یہ افسانہ محض ایک کہانی نہیں، ایک صدا ہے — اُن بے زبان لوگوں کی جن کی آوازیں جنگ کے شور میں دب جاتی ہیں۔ یہ تحریر اُن بچوں، عورتوں، بزرگوں اور عام انسانوں کے لیے ہے جو نہ جنگ چاہتے ہیں، نہ اس کا حصہ بننا، مگر پھر بھی سب کچھ کھو بیٹھتے ہیں۔

ہمیں سوچنا ہوگا — کیا ہم واقعی جیت رہے ہیں، یا صرف انسانیت کو ہارتے دیکھ رہے ہیں؟

یہ وقت ہے بولنے کا، سوچنے کا، اور وہ سوال اٹھانے کا جن سے سب آنکھیں چراتے ہیں۔

جنگ کا اختتام تبھی ممکن ہے جب ہم اس کے آغاز پر سوال کریں۔
Post a Comment (0)
Previous Post Next Post