"سوزِ محبت" ہلکی پھلکی، سیدھی سادی سی محبت کی کہانی ہے۔ ایسی ہلکی پھلکی سی کہانی موڈ فریش کر دیتی ہے خیر! ہم سے اتنا پیار محبت اور عشق کی کہانیان ہضم نہیں ہوتی لیکن یہ اچھی ہے شاید اس لئے بھی کہ کافی عرصے بعد کچھ ایسا پڑھا بغیر نصیحتوں اور تقریروں کے
ناول کی بات کریں تو کہانی دو لوگوں (تیسرا ذبردستی کا ) کی محبت کے گرد گھومتی نظر آتی ہے۔ شاہ میر اور ایمان۔۔۔۔
شاہ میر خان آفریدی! فطرتی طور پر ایک جنونی انسان اور اگر وہ کسی کام کو کرنے کا تہیہ کر لیتا تو اُسے اس قدر اپنے سر پر سوار کر لیتا کہ پھر اُسے اس کے علاوہ کچھ دکھائی نہ دیتا۔ ہر کام انتہا پر جا کے کرنے کا قائل تھا۔ چاہے وہ کام محبت ہی کیوں نہ ہو۔۔۔اور یہی محبت اُس سے وہ ہر کام کرواتی ہے جسے وہ مر کر بھی کبھی نہ کرتا۔
ایمان عرف حیات خان آفریدی! شاہ میر کی کزن، دوست، ہمراز ۔۔۔ایک نڈر اور بے باک لڑکی لیکن اپنی حدود کو اچھے سے پہچانتی تھی۔وہ اپنے دل کی ہر بات، پر خواہش شاہ میر کے سامنے رکھتی تھی۔ وہ اسکا دوست بھی تھا اور ہمراز بھی۔ اپنے والدین سے زیادہ شاہ میر کو وقعت دیتی تھی ۔۔ اور شاہ میر ! وہ تو روزِاوّل سے اُسے ہر چیز پر مقدم رکھتا تھا۔
ہماری زندگیوں میں کہیں نہ کہیں ایک ایسا کردار ضرور ہوتا ہے جو آپکو دُنیا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جینا سکھاتا ہے ، دُنیا کا مُقابلہ کرنا سکھاتا ہے، اور اِس کہانی میں وہ کردار شاہ میر خان آفریدی ہے۔۔اور یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ ایمان شاہ میر کا عکس تھی۔ شاہ میر نہیں چاہتا تھا کہ ایمان اس کی کوئی بھی ایسی عادت اپنائے جو اس کی آنے والی زندگی میں اس کے لئے کسی مسئلے کا باعث بنے۔ مگر شاہ میر نہیں جانتا تھا باوجود احتیاط کے ایک دن ایسا آنے والا تھا جب وہ حیات میں اپنا عکس دیکھے گا اور اس دن وہ اتنا بے بس ہو گا کہ چاہ کر بھی کچھ نہیں کر پائے گا۔
اس ناول کی کہانی میں آپ کو ذندگی کا ہر رنگ دیکھنے کو ملے گا ، جنون، محبت، دوستی ، رنج ، دکھ ، حسد اور رقابت سے بھرے ہوئے دلوں کو آپ پڑھیں گے ۔ مختصر یہ کہ یہ ایک محبت کی داستان ہے!